فلسطین کی سرزمین اس وقت لہو سے تر ہے، بچوں کی چیخیں، ماؤں کی آہیں، اور نہتے انسانوں کی شہادتیں پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔ ظلم اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر انسان اور مسلمان کا فرض ہے نہ کہ کہ صرف کسی ایک مذہب یا قوم کا۔ ہر وہ دل جو انصاف پر دھڑکتا ہے، وہ آج فلسطین کے ساتھ ہے۔
یہ تحریر جذباتی نعرہ نہیں، اور نہ ہی صرف ایک مذہبی یا پاکستانی جذبہ ہے — بلکہ یہ کچھ ایسے تلخ حقائق کی نشاندہی کرے گی جو بہت سے لوگوں کو ناگوار گزریں گے، لیکن سچ یہی ہے اور سچ بیان کرنا لازم ہے۔ ہم اکثر احتجاج میں شدت دکھاتے ہیں، مگر شعور کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا احتجاج جو صرف وقتی غصّہ نکالے اور اصل مسئلے کا حل نہ نکالے، وہ اکثر فائدے سے زیادہ نقصان دیتا ہے۔
حال ہی میں احتجاج کی بہت ساری ویڈیو ز میں دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کوکا کولا کی کئی بوتلیں خریدیا کہ دکان سے اٹھا کر سڑک پر بہا دیں شاید اس نیت سے کہ وہ کمپنی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے ک جس جگہ سے وہ بوتلیں حاصل کی گئی ہوں گی، اُس نے پہلے ہی ادائیگی کر دی تھی، کمپنی کو تو فائدہ ہوا، نقصان صرف اپنی جیب، اپنی صفائی، اور اردگرد کے ماحول کا ہوا۔ ایسے ہی بنگلہ دیش میں، پاکستان میں مختلف KFC آؤٹ لیٹس کو مظاہرین نے مکمل طور پر تباہ کر دیا، بغیر یہ سوچے کہ وہاں کام کرنے والے مقامی لوگ تھے، جن کا روزگار اُس جگہ سے جُڑا تھا ان کا کیا ہوگا یا اس فرنچائز کا مالک جو اس تمام مال کی ادائیگی کر چکا ہے اور ہمارا ہی کوئی بھائی ہے اس کا کیا ہوگا۔ راولپنڈی میں جس طرح ایک کے ایف سی برانچ میں احتجاج کرنے والے نے وہاں موجود بچوں اور خواتین کے ساتھ جو زبان استعمال کی گئی اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ہم سبھی دیکھ چکے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے بہتر یہ نہیں تھا کہ پہلے اس کے نقصان اورباقی افراد کے روزگار کے باقی راستوں کو پیش نظر رکھا جاتا، انہی فرنچائزز کو برباد کرنے کی بجائے وہیں سے ایسے روزگار کا سامان کیا جاتا کہ جس سے مدد پیدا کر کے براہ راست فلسطین بھیجی جاتی نہ کہ اپنی ہی املاک کا نقصان کر کہ اپنی کمزوری و بے بسی کا اظہار کیا جاتا۔ احتجاج کرنا حق ہے، لیکن بے سمت احتجاج صرف نقصان لاتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ جذباتی ردعمل سے زیادہ مؤثر اور باشعور ردعمل کی ضرورت ہے۔ ایسا ردعمل جو طویل مدتی تبدیلی لا سکے۔
بات کرتے ہیں اُن کمپنیوں کی طرف جنہیں اکثر اسرائیل نواز یا ''Zionist Supporters'' کہا جاتا ہے — جیسے کوکا کولا، پیپسی، نیسلے، یونی لیور، پراکٹر اینڈ گیمبل وغیرہ۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں صرف اشیاء فروخت نہیں کرتیں، بلکہ یہ ہزاروں خاندانوں کی معاش کا ذریعہ بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان کے پلانٹس، فیکٹریز، اور آؤٹ لیٹس لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں، چھوٹے تاجروں کو کاروباری مواقع دیتے ہیں، اور ہر سطح پر معیاری سہولیات مہیا کرتے ہیں۔اب حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود ان کمپنیوں کے مقابلے میں کوئی مضبوط، معیاری پروڈکٹس فراہم نہیں کر رہے۔ جب ہم ان کمپنیوں کے بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں، تو کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہمارے پاس ان کے متبادل پروڈکٹس موجود ہیں؟ کیا ہم خود ایسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں جو ان کی معیار کی سطح تک پہنچ سکیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم بحثیت قوم ہر کام میں بے ایمانی اور دو نمبری اورملاوٹ کے عادی ہیں۔ مارکیٹ میں جو مقامی پروڈکٹس موجود ہیں، وہ اکثر معیار میں کمی، جعلی اجزاء، اور کمزور پیکجنگ کا شکار ہیں۔تو ایسی صورت میں آپ کا احتجاج کس کے لئے؟ کیا ہم بحثیت قوم ایسی محنت کر رہے ہیں کہ اپنے لئے خود تمام ایسی پراڈکٹس بنائیں جو کہ ہمارے روز مرہ کے استعمال میں ہیں؟ نہیں، کیا ایسا کرنا ممکن نہیں؟ یقینا ہے مگر اس کے لئے محنت، علم و خودداری کی ضرورت ہے جو کہ صاف الفاظ میں کہوں گا کہ ہماری قوم میں عنقا ہے۔ اگر آج ان کمپنیز کو بند بھی کر دیا جائے، تو کیا ہمارے پاس ان کی جگہ لینے والی پراڈکٹس موجود ہیں؟ کیا ہم ان بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کر سکتے ہیں جو ان کمپنیز میں کام کرتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم خود اپنے مقامی برانڈز کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، یا ہم اُنہی برانڈز کو ترجیح دیتے ہیں جنہیں ہم اکثر ''غیر ملکی'' یا ''اسرائیلی'' کہتے ہیں؟ سچ یہی ہے کہ جب تک ہم اپنے مقامی پروڈکٹس کو معیار کے مطابق نہیں بنائیں گے، تب تک ان برانڈز کی موجودگی ضروری ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہمارے پاس کوئی بہتر متبادل نہیں، تو احتجاج کا اثر وہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں۔ اور اگر ہم خود بہتر پروڈکٹس تیار کریں، تو یہ نہ صرف ہمارے معاشی نظام کو مستحکم کرے گا، بلکہ ایک مثبت تبدیلی بھی لے کر آئے گا۔ مجموعی طور پر ہماری ساری بائیکاٹ کی کوششیں حقیقت میں مزاحیہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ہم خود کو ”مقاومت“کے علمبردار سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا عمل زیادہ تر بے مقصد اور غیر موثر ہوتا ہے۔ ہم جب ان کمپنیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو کبھی یہ سوچا کہ ہم فیسبک، انسٹاگرام، یا ٹویٹر پر اپنی ”جدوجہد“ کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان پلیٹ فارمز پر بھی یہودیوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا ان کمپنیوں کا، یا شائد اس سے زیادہ۔ ان سوشل میڈیا چینلز پر پوسٹ کی جانے والی ہر ویڈیو، ہر” شیئر“، صرف ان کی معیشت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اور ہم جب ان فرنچائزز کو جلا کر ان کی ویڈیوز بناتے ہیں،دھڑادھڑ شیئر کرتے ہیں تو بھی ہم ان کے کاروبار کا فروغ کر رہے ہوتے ہیں، ان کی ساکھ کو بڑھا رہے ہوتے ہیں — صرف اپنی لاعلمی اور جذباتیت کے باعث۔
یہ سارے احتجاج رائیگاں ہیں جب تک ہم زندگی کے ہر شعبے میں خودمختار نہیں ہو جاتے۔ ہم جب تک اپنے وسائل اور طاقت پر انحصار نہیں کریں گے، ان کمپنیز کا بائیکاٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم خود ان کمپنیز کے دست نگر بنے رہیں گے، چاہے جتنا بھی احتجاج کر لیں، کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے اندرونی مسائل کو حل نہیں کرتے اور مکمل طور پر خودکفیل نہیں ہو جاتے، بیرونی قوتوں کا بائیکاٹ محض ایک علامتی عمل بن کر رہ جائے گا۔
اب بات کرتے ہیں کہ کیا ہم چپ بیٹھے رہیں؟ یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے سب دیکھتے رہیں؟ نہیں، ان کمپنیز کا بائیکاٹ ضرور کریں، اور کرنے کا درست طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنے منتخب نمائندگان کے ذریعے اسمبلی میں بل پیش کریں اور ان تمام کمپنیز کو ہمارے ملک میں کام کرنے سے روکا جائے۔ہم اپنے ان ممبران کو جنہیں ہم نے اپنے علاقے میں بہت جوش و خروش سے چنا تھا ان کو مجبور کریں کہ وہ اسمبلی میں آئینی طریقہ کار کا اپناتے ہوئے نا صرف شدید اقدامات کریں بلکہ کھلم کھلا اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے ہر قسم کی مالی و جنگی حمایت کاعملی بندوبست کیا جائے اور قوم اس کے جواب میں دنیا سے جو بھی ردعمل ہو، خواہ وہ بین الاقوامی پابندیاں ہوں یا براہ راست جنگ اس کے لئے مکمل تیار ہے۔کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا جن منتخب نمائندگان کے لئے الیکشن میں ہم اپنے بھائیوں سے لڑ مرنے پر تیار ہوتے ہیں کیا ان سے یہ مطالبات منوا پائے گے؟ ان سوالات کے جوابات آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ جنہیں لگتا ہے کہ ہم بالکل ہی کمزور ہیں، بین الاقوامی پابندیاں جھیل نہیں سکتے یا مقابلے کی طاقت کم ہے تو ان کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی انڈونیشیا کے لئے عملی مدد و براہ راست ڈچ فوجی جہازوں کو رکوانے کی کہانی موجود ہے جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف خودمختار ہے بلکہ مسلمانوں کی آزادی و جدوجہد کے لئے روز اول سے کسی بھی طرح حاضر ہے، اور یہ جناب ِ قائد ؒنے تب کیا جب کہ پاکستان ابھی اپنے پاؤں پر ٹھیک سے کھڑا بھی نہ ہو پایا تھا۔ یہ بائیکاٹ صرف تب ہی موثر ہوگا جب ہم اس کو قانونی اور بااختیار طریقے سے کریں گے۔
اگر کمپنیز کے خلاف بائیکاٹ کرنا ہے تو ہم یہ یقینی بنائیں کہ ان کمپنیز کے فرنچائز مالکان، عملہ، اور تمام افراد جو اس کام سے وابستہ ہیں، ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے تاکہ ہمارے اپنے بھائیوں کا نقصان نہ ہو۔ اس بائیکاٹ کے بعد ان کی معاشی حالت کو نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ ان کے لیے بہتر متبادل روزگار فراہم کرنے کے امکانات تلاش کیے جائیں۔سب سے زیادہ زور اپنے حکمرانوں، منتخب نمائندگان، اور اُن افراد پر دیا جائے جو براہ راست بیرونی ممالک اور ان کمپنیز سے وابستہ ہیں۔ ان لوگوں کو جواب دہ بنایا جائے تاکہ وہ ہمارے قومی مفاد کو سمجھیں اور ان کمپنیز کو ہمارے ملک میں کاروبار کرنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ اس طرح ہم نہ صرف بیرونی اثرات کو کم کر سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کے داخلی استحکام کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔ہمیں کسی بھی مسلمان بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لئے پہلے خود ایک باعلم و خودار قوم بننا ہوگا۔ شعور، علم و آگاہی اور احساس کو بیدار کرنا ہوگا۔ ایک قوم بننا ہوگا، پھر ہی ہم اپنے بھائیوں کی صحیح سے مدد کرپائیں گے۔
تبصرہ لکھیے