ہوم << زن زندگی؛ عورت کے بائیس روپ - رقیہ اکبر چوہدری

زن زندگی؛ عورت کے بائیس روپ - رقیہ اکبر چوہدری

"افسانہ ایک سحر ہے جو لکھنے والے کی جادوگری میں مہارت اور پڑھنے والے کو تادیر گرفت میں رکھے۔ میں ثمینہ کو اس فن میں ماہر محسوس کرتی ہوں۔ افسانے کی بنت اور نثری اسلوب میں مسلسل محنت ثمینہ سید کی ایک مضبوط شناخت بنا چکی ہے۔ ایک ہی نشست میں پڑھی جانے والی صنف افسانہ کسی چونکا دینے والے اختتام کا متقاضی ہے۔ ثمینہ کے افسانے زندگی کی تلخیوں سے نڈھال ہیں اختتام تک آتے آتے افسانہ پوری طرح جکڑ لیتا ہے۔ یہ اعتراف مجھے خوشی دیتا ہے کہ ہمارے بعد بہت اچھا لکھنے والے موجود ہیں۔ اردو نظم و نثر جمود و یکسانیت کا شکار نہیں ہوگی." یہ کہنا ہے ملک کی معروف لکھاری اور ہم سب کی بےحد پیاری آپا سلمیٰ اعوان صاحبہ کا۔

ثمینہ سید جو ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی یکساں مقبول ہیں ان کے افسانوں کی نئی کتاب "زن زندگی" کے فلیپ پہ درج سلمیٰ اعوان صاحبہ کی یہ مختصر مگر جامع رائے ثمینہ کے افسانوں پہ سب سے صائب اور بھرپور رائے ہے۔ عجیب اتفاق ہے مجھے ثمینہ کے افسانے پڑھنے کا موقع اس سے پہلے نہیں ملا تھا ، صرف ایک یا دو افسانے ہی سنے تھے مگر اب جب اس کی کتاب میرے ہاتھ آئی تو میں نے یہ جانا کہ زندگی کے میدان میں خوشیاں بانٹتی ثمینہ سید جس نے اپنی شاعری میں نسائی جذبات کی بھرپور ترجمانی کے ساتھ شاید شعوری کوشش کی کہ زندگی کی تلخیوں کی کڑواہٹ اس میں گھلنے نہ پائے افسانے میں آ کر کھل گئیں۔ یہاں ایسی کسی شعوری و غیر شعوری کوشش کا کوئی التزام نہیں کیا گیا۔

شاعری کا کینوس بےشک بہت وسیع ہے مگر افسانے کا اپنا میدان ہے اور ثمینہ نے افسانے کی ہمہ جہت وسعت کو استعمال کرتے ہوئے وہ سب کہہ دیا جسے کہنے کیلئے اس نے شاعری کے غزلیہ لہجے کو ناکافی یا مناسب نہیں سمجھا۔ اور اس کا اعتراف پیش لفظ میں وہ یوں کرتی ہیں۔
لکھتی ہیں "میرے دکھ ایک بیٹی کے دکھ ہیں،ایک ماں کے دکھ ہیں،بہن ہونے کے زخم بھی روح پر ہیں، محبت کی خواہش سے لیکر ہجر و وصال کے سبھی موسم بھی میں نے سہے ہیں۔بیوی ہونا کیسا کرب ہے یہ بھی جانتی ہوں۔ میری یہ کہانیاں زن زندگی عورت کے روتے کرلاتے دکھ ہیں جو ہر طبقے ہر عمر کی عورت کا نصیب ہوتے ہیں."

سیوا پبلی کیشنز کے پلیٹ فارم سے چھپی 152 صفحات کی یہ کتاب جس میں کل 22 افسانے ہیں اپنے ٹائٹل سے ہی اپنے مضمون کی پہچان کروا دیتی ہے۔ جیسا کہ نام "زن زندگی" سے ظاہر ہے کہ ان افسانوں میں نسائیت غالب ہو گی تو ایسا ہی ہے۔ یہ بائیس افسانے نہیں عورت کے ایسے بائیس روپ ہیں جس میں کئی کہانیاں چھپی ہیں۔ اسے پڑھا تو مجھے واقعی حیرت ہوئی کیونکہ میں جس ثمینہ کو جانتی تھی وہ ایک بہادر ،غم ،دکھ ،پریشانیوں کو چٹکیوں میں اڑانے والی ایسی مظبوط عورت تھی جس نے رونا نہیں سیکھا ،ہر مشکل ہر مصیبت کا ڈٹ کر مگر مسکرا کر مقابلہ کیا لیکن افسانوں میں عورت کے جس روپ سے اس نے پردہ اٹھایا وہ دکھ درد میں لپٹی روتی کرلاتی بین کرتی عورت ہے۔ جو اپنے حق کیلئے بولتی تو ہے مگر روتے ہوئے۔۔۔وہ معاشرتی جبر پہ چیخ اٹھتی ہے مگر آنسوؤں کو پلو سے صاف کرتے ہوئے ،وہ اپنی ناقدری پہ بین کرتے ہوئے گھٹی گھٹی آواز میں سامنے والے کو احساس دلاتی ہے۔اس کی آواز میں گھن گرج نہیں ہوتی ،دو ٹوک اور قطیعت والا رنگ نہیں ہوتا بلکہ دفاعی پوزیشن پہ کھڑی اپنے کے خلاف نبرد آزما قوتوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ یہ کہانیاں پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ اس مظبوط خاتون لکھاری کے اندر ایک نازک اندام لڑکی چھپی بیٹھی ہے جو گھریلو معاشرت اور سماجی ناہمواری سے پیدا ہونے والے نفسیاتی و جنسی مسائل سے براہ راست متاثر ہوتی ہے تو مرد کے مظبوط سائے میں جا کے چھپ جانا چاہتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو قدرت نے آدم و حوا کو جوڑے کی صورت پیدا کیا اور یہ جوڑا بنا رہنا ہی دونوں کی بقا ہے۔

ثمینہ کے افسانے حقیقت کے بہت قریب ہیں عام عورت کی زندگی کے عکاس ہیں۔سادہ انداز میں روزمرہ زندگی کے المناک حادثات و واقعات بیان کرتے ان افسانوں میں ہمارے سماج کے سارے بدرنگ چہرے نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ثمینہ نے عورت کی جرات و جی داری کو بھی موضوع بنایا مگر کم کم۔۔ ان افسانوں میں البتہ اس نے عورت کے درد بیان کرنے کو زیادہ اہمیت دی اور تقریباً ہر موضوع اور مسئلے پر نہایت سلیقے،باریکی اور جرات سے لکھا۔

بانو قدسیہ جیسی نامور ادیبہ نے ثمینہ کےلیے جو کہا میں چاہوں گی اپنے قارئین سے وہ رائے ضرور شیئر کروں۔۔لکھتی ہیں: "میں خوش ہوں اور بہت مطمئن بھی کہ نثر لکھنے والی عورتوں میں یہ نام 'ثمینہ سید' پوری انسانیت اور زمانہ سازی لئے ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ثمینہ سید کا سفر تسلسل لئے ہوئے ہے۔موضوعات میں تنوع ہے ارتقاء ہے صد شکر کہ جمود نہیں۔میں نے ثمینہ کا ہاتھ پکڑ کر دل کی پوری سچائی سے کہا یہ سفر رکنا نہیں چاہیئے۔ میں تمہارا نام ادب کے چند نمایاں ناموں میں دیکھتی ہوں." اور اپنے عہد کی معروف لکھاری نیلم احمد بشیر صاحبہ کہتی ہیں: " ثمینہ سید آج کے دور کی تعلیم یافتہ ،حقائق سے آگاہ سنجیدہ افسانہ نگار ہیں۔انہوں نے کسی فرضی دنیا میں آنکھ نہیں کھولی لہذا وہ بڑی بہادری سے ممنوعہ موضوعات پر لکھ رہی ہیں اور اپنے قارئین کو متاثر کر رہی ہیں." اور منیر عباس سپرا کہتے ہیں: "ثمینہ سید کے موضوعات ہر رنگ کے ہیں لیکن ان میں ایک روایتی افسانہ نگاری کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔تنوع کے باوجود اسلوب میں سادگی اور سلاست کے ساتھ ساتھ روایت کا احساس دلاتے ہیں۔ان کے موضوعات سماج کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں."

ثمینہ تمہیں میری طرف سے ادبی سفر میں کامیابی کا ایک اور سنگ میل عبور کرنے پر بہت ساری مبارکباد۔

Comments

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ، کالم نویس اور کہانی کار ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment