ہوم << بابِ لد، دجال کی جائے قتل - تصور اسلم بھٹہ

بابِ لد، دجال کی جائے قتل - تصور اسلم بھٹہ

صحیح بخاری کی حدیث ہے
“ وہ پھر اسے ( دجال ) تلاش کریں گے
یہاں تک کہ اسے باب لُد پر جا لیں گے اور پھر اسے قتل کر دیں گے “
سنن ابو داؤ میں ہے
“ عیسیٰ ابن مریم دمشق کی مسجد کے سفید مینار سے اتریں گے
اور اسے (دجال) باب لُد پر جا پکڑیں گے اور اسے قتل کر دیں گے”
ہم جیسے ہی بن گوریان ائیرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلے ۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کی ایک پوری ٹولی ہم پر چیلوں کی طرح جھپٹ پڑی ۔ ہر شخص کی اولین کوشش تھی کہ کسی طرح ہمارے سامان پر قابض ہو جائے تاکہ پھر وہ آسانی سے اپنی شرائط پر اپنی مرضی کا کرایہ طے کر سکے ۔ چند لمحوں تک تو ہمارے اوسان خطا رہے۔ لیکن پھر صورت حال کا اندازہ کر کے ہم نے اپنے بیگوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ ان ڈرائیوروں کے بارے میں حمزہ ہمیں پہلے ہی بتا چکا تھا۔ اس لئے ہم ان کے نرغے سے بچنے میں کسی حد تک کامیاب رہے ۔
بلال زیادہ حاضر دماغ نکلا اور ان سے کنی کترا کر سڑک کے کنارے کھڑے ایک عرب کی طرف بڑھ گیا جو بڑی خاموشی اور سکون سے کھڑا یہ دھماچوکڑی دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس سے معاملہ طے کیا جس پر اس شخص نے آگے بڑھ کر میرا بیگ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہمیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے ہمارے آگے آگے چلنے لگا۔ سامان اس کے ہاتھ میں آتا دیکھ کر باقی سارے ٹیکسی ڈرائیور اس طرح لاتعلق ہو کر کھڑے ہوگئے جیسے یہاں کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
اس کی ٹیکسی زیادہ دور نہیں تھی ۔ ہمارا سامان ڈگی میں رکھتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کروایا۔
اس کا نام ابو قاسم تھا وہ بہت دبلا پتلا اور لمبا شخص تھا چالیس کے پیٹے میں ہوگا ۔
ٹیکسی جیسے ہی ائیرپورٹ سے باہر نکلی ٹیکسی ڈرائیور نے اپنے مخصوص عربی لہجے کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہم سے باتیں شروع کر دیں وہ بہت باتونی لگتا تھا
اس کے چہرے پر چھدری خشخشی داڑھی تھی اسے دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے ملا نصیرالدین یاد آگیا
وہ فلسطینی عرب تھا اور اس کا خاندان پچھلے کئی سو سال سے لُد میں رہائش پذیر ہے
اس کا باپ بھی ٹیکسی ڈرائیور تھا
دادا امام مسجد اور پڑداداعثمانی دور میں لد کا قاضی تھا
اپنے شجرہ نصب کی تفصیل بتانے کے بعد پھر وہ ہمارے بارے میں پوچھنے لگا کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں ۔
یہ سن کر کہ وہ لُد کا رہنے والا ہے میں نے اس سے اشتیاق بھرے لہجے میں” باب لدُ “کے بارے میں استفسار کیا تو وہ ایک دم پرجوش ہوگیا۔
اس کے لہجے کی گرم جوشی بڑھ گئی اور چہرہ جذبات کی شدت سے تمتمانے لگا۔
اس نے بتایا کہ اس کا گھر باب لُد سے صرف دو کلومیٹر دور ہے اور اس کا بچپن باب لُد کے نواح میں کھیلتے کودتے گذرا ہے
اسے باب لُد کے بارے میں کئی احادیث حوالوں کے ساتھ یاد تھیں
اس نے ہمیں پوری تفصیل سے بتایا کہ کیسے دجال حضرت عیسیٰ سے ڈر کر بھاگے گا اور وہ اسے باب لُد پر آ لیں گے اور وہ اسے قتل کر کے اس کی لاش باب لُد میں بنے کنوئیں میں لٹکا دیں گے۔
اس کی زبان سے دجال اور باب لُد کا ذکر سن کر بلال کا اشتیاق بھی بڑھ گیا جو پہلے بڑی بیزاری سے کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا اور بہت تھکا تھکا لگ رہا تھا ۔
غالباً اسرائیلی امیگریشن کے ساتھ گزارے پچھلے پانچ چھ گھنٹے اس پر بہت بھاری گذرے تھے ۔ اسنے بھی بڑی دلچسپی سے ابو قاسم سے سوال و جواب شروع کر دئیے تھے ۔
ہمارا اشتیاق دیکھتے ہوئے ابو قاسم نے ہمیں باب لُد دکھانے کی پیشکش کی
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں
ہم نے فوراً ہاں کر دی ۔
جس پر اس نے موٹر وے چھوڑ دی اور ٹیکسی واپس لُد کی جانب موڑ لی ۔
باتوں ہی باتوں میں ہم لُد سے خاصا آگے نکل آئے تھے ۔
ابو قاسم اب بلال کو لُد Lod کی تاریخ کے بارے میں بتا رہا تھا
وہ ٹیکسی ڈرائیور کم اور ٹورسٹ گائیڈ زیادہ لگ رہا تھا اسے لُد کی ساری تاریخ ازبر تھی
وہ بتا رہاتھا کہ لُد
تل ابیب سے پندرہ کلومیٹر جنوب مشرق میں اور یروشلم سے چالیس کلو میٹر شمال مغرب میں اسرائیل کے وسط میں واقع ہے۔
یہ شہر پانچ ہزار چھ سو سال پرانا ہے اور نو سنگی دور Neolithic (10,000 BC to 2000BC ) سے آباد ہے یہ پتھر کے ابتدائی دور کے بعد کا وہ زمانہ تھا جب انسان نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کا آغاز کیا اور پتھر کے بعد دھاتی اوزاروں کی تیاری اور ان کے استعمال کا طریقہ سیکھا ۔ پہیہ بھی اسی دور میں ایجاد ہوا ۔
2019 ء کی مردم شماری کے مطابق لُد کی آبادی تقریباً پچاسی ہزار کے قریب ہے اور یہاں یہودیوں کی تعداد ساٹھ فی صد کے قریب ہے اور فلسطینی عرب تقریباً تیس فی صد ہیں اور باقی دس فی صد عیسائی عرب ہیں جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں ۔ چند درجن بہائی بھی یہاں رہتے ہیں ۔
لُد اسرائیل کا سب سے بڑا نقل وحرکت Transportation کا مرکز اور بین الاقوامی ائیرپورٹ ہے۔
جسے تل ابیب ائیر پورٹ یا بن گوریان ائیرپورٹ کہتے ہیں ۔
یہ ائیرپورٹ لُد شہر سے پانچ کلومیٹر دور ہے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے یہاں تشریف لائے تو فلسطین کو کنعان اور لُد کو لِڈاLydda کہتے تھے
چونکہ لُد حیفہ اور یروشلم کے درمیان واقع ہے اس لئے یہ ہمیشہ سے ہی اپنی جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہم رہا ہے ۔
حیفہ اسرائیل کی سب سے بڑی اور اہم بندرگاہ ہے جو بحیرہ روم
Mediterranean Sea
کے کنارے واقع ہے۔
صدیوں سے بحری جہازوں کے ذریعے مغرب سے آنے والے قافلے حیفہ پر رکتے اور وہاں سے بذریعہ سڑک لُد سے ہوتے ہوئے یروشلم اور عرب کی سرزمین کی طرف نکل جاتے ۔
اس زمانے میں لُد ایک بڑا تجارتی ، معاشی اور فوجی مرکز ہوا کرتا تھا۔
اس شہر کا تذکرہ توریت اور یہودیوں کی ساری مقدس کتابوں میں موجود ہے ۔
عبرانی بائبل میں اسے بنجمن Benjamin کا شہر کہا گیا ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کا بیٹا تھا اور یہودیوں کے بارہ قبیلوں میں سے ایک قبیلے کا بانی تھا ۔ اور قبیلہ بنجمن لُد اور اونو میں آباد تھا جولُد کے نزدیک ایک اور شہر ہے ۔
سیسل روتھ نے انسائیکلوپیڈیا آف یہودہ (Cecil Roth, Encyclopaedia Judaica,)
میں لکھا ہے کہ
“پانچ سو سال قبل مسیح میں لُد یہودیوں کے اہم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔
ستر قبل مسیح میں جب رومیوں نے سکینڈ ٹمپل کو تباہ کیا اور یہودیوں کے سارے شہروں یروشلم ، ہیبرون اور جریکو کو تباہ و برباد کر کے ملیا میٹ کر دیا تو ان شہروں میں لُد بھی شامل تھا۔ “
عیسائی بائبل میں اس شہر کا ذکر لِڈا Lydda کے نام سے آیا ہے ۔
۲۰۰ء میں رومی شہنشاہ سیپتیموس سویروس نے اسے شہر کا درجہ دیا اور اس شہر کے گرد پہلی بار حفاظتی فصیل تعمیر کروائی ۔ اس دور میں یہ شہر رومیوں کا بڑا اہم ثقافتی ، تجارتی معاشی اور فوجی مرکز بن کر ابھرا ۔ وہ اسے ڈائیوس پولس Diospolis کے نام سے جانتے تھے جس کا مطلب کا زئیوس کا شہر ۔ زئیوس Zeus قدیم رومیوں اور یونانیوں کا بجلی اور آسمان کا خدا تھا جسے سارے خداؤں کا بادشاہ King of gods بھی سمجھا جاتا تھا ۔
۳۵۵ء میں اس پر بزنطینی سلطنت کا قبضہ ہوا۔
چھٹی صدی عیسوی میں اس کا نام لِڈا سے بدل کر جارج پولس Georgepolis رکھ دیا گیا۔
اردن میں بزنطینی دور کے کئی چرچ ہیں جن کے فرش پر موزئیک Mosaic سے فلسطین کا نقشہ بنا ہے جن میں فلسطین شہر دکھائے گئے ہیں ان میں آٹھویں صدی عیسوی میں بنا ام الرصاص کا سینٹ سٹیفن چرچ اور
مڈابا Madaba میں چھٹی صدی عیسوی کے دوران بنایا گیا سینٹ جارج کا چرچ بہت مشہور ہیں اور ان دونوں چرچوں کے فرش میں لُد کو جارج پولس کے نام سے دکھایا گیا ہے ۔
۶۰۸ ء میں ایرانیوں اور رومیوں کے درمیان جنگ چھڑی جس میں خسرو پرویز کی فوجوں نے رومی شہنشاہ ہرکولیس کو شکست دے کر اس کے سارے مشرقی مقبوظات پر قبضہ کر لیا
اس دوران ایرانی سپہ سالار
شہر براز نے یروشلم پر قبضے کے لئے جاتے ہوئے رستے میں پڑنے والے لُد کو مکمل طور پر تباہ کر دیا
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں لُد محض چند سو افراد کی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں تھا
۶۳۶ء میں حضرت عمرو بن العاص رضی تعالیٰ عنہ نے فلسطین فتح کیا تو انہوں نے اس کا نام جارج پولس سے بدل کر دوبارہ لُد رکھ دیا ۔
لُد میں ایک بڑی فوجی چھاؤنی قائم کی گئی اور یہ کئی سال تک
“ جند فلسطین “ کا ہیڈکواٹرز رہا
بعد میں اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک کے دور میں یہ چھاؤنی اور مرکز رملہ منتقل کر دیا گیا-
شمس الدین مقدسی قرون وسطی کے ایک عرب جغرافیہ دان اور مصنف تھے۔وہ یروشلم میں پیدا ہوئے ۔ ان کی کتاب “احسن التقاسیم فی معرفتہ القالیم “ فلسطین کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ جس کا دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ترجمہ ہوا ہے ۔ یہ کتاب آج بھی اس موضوع پر بڑی معتبر سمجھی جاتی ہے ۔
انگلش میں یہ کتاب Best Division for Knowledge of Regions کے نام سے موجود ہے ۔
المقدسی نے ۹۸۵ء میں فاطمید کے دور میں لُد کا سفر کیا اور اس نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے باب لُد اور سینٹ جارج کے مقبرے کا ذکر کیا ہے ۔
۱۰۹۹ء میں اس پر صلیبیوں نے قبضہ کرلیا کیونکہ یہ شہر سینٹ جارج کی وجہ سے عیسائیوں کے لئے بے پناہ اہمیت رکھتا تھا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے گو کہ یروشلم صلیبیوں سے ہمیشہ کے لئے واپس لے لیا تھا لیکن لُد پر اس کا قبضہ چند مہینوں تک ہی برقرار رہ سکا اور انگلینڈ کے شہنشاہ رچرڈ شیر دل نے اس پر قبضہ کرلیا
۱۲۶۸ء میں دوسرے مملوک سلطان بیبرس نے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا
بیبرس کے دور میں اس شہر نے بہت ترقی کی ۔ اس نے اس شہر کے گرد نئی فصیل تعمیر کروائی
باب لُد کی موجودہ عمارت اسی کے دور کی یادگار ہے ۔
پھر یہ شہر تقریبا” پانچ سو سال تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ۔ عثمانی دور کی کوئی خاص نشانی اس شہر میں نظر نہیں آتی ۔
پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کے بعد یہ برطانوی قبضے میں چلا گیا ۔
اور انہوں نے یہاں ہوائی اڈا تعمیر کروایا جو لُد ائیرپورٹ کہلاتا تھا
۱۹۴۸ء تک لُد فلسطینی عربوں کا شہر تھا اور اس سال ہونے والی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی بیس ہزار تھی جس میں اٹھارہ ہزار عرب مسلمان ڈیڑھ ہزار عیسائی ستر یہودی اور چند سو بہائی تھے
گیارہ جولائی ۱۹۴۸ء کو پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دروان یہودی فوج نے لُد پر قبضہ کر لیا اور سینکڑوں عرب فلسطینی مسلمانوں کو قتل کر دیا
باقی ماندہ عرب باشندوں کو زبردستی لُد سے بے دخل کر دیا اور انہیں بالجبر بندوق کی نوک پر اردن کی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیا
اور لُد میں مسلمانوں کا ہولوکوسٹ رچانے کے بعد یورپی ہولو کاسٹ کے نتیجے میں یورپ سے آنے والے یہودیوں کی نئی بستیاں یہاں بسائی گئیں ۔
۱۹۶۸ ء میں لُد ائیرپورٹ کا نام بدل کر اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کے نام پر بن گوریان ائیرپورٹ کر دیا گیا
ٹیکسی ایک ندی پر بنے بہت پرانے پل پر سے گذری تو ابو قاسم نے بتایاکہ یہ پل ایک ہزار سال پہلے بیبرس نے بنوایا تھا
اس لئے اسے بیبرس کا پل یا جسر جنڈس کہتے ہیں
اس پل پر بنے چیتے کے نقوش دور سے نظر آ رہے تھے
کیونکہ بیبرس ترک النسل تھا اور ترکی میں بیبرس کا مطلب چیتا یا تیندوا ہوتا ہے اس لئے بیبرس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جو بھی عمارت بنواتا تھا اس پر چیتے یا تیندوے کی تصاویر یا مجسمے ضرور بنے ہوتے ہیں
یہاں تک کہ اس کی فوج کے ہر جوان کے کالر پر چیتے کی بیج لگا ہوتا تھا
چیتے کے ایسے ہی نقوش ہمیں یروشلم کے باب الأسباط Lion gate ، باب لُُد کے محرابی دروازے اور مسجد خضر کے داخلی دروازے پر بنے نظر آئے جو بیبرس نے بنوائی تھی
اسی دوران ٹیکسی لُد شہر میں داخل ہوئی رات کے نو بجے تھے شہر کی سڑکوں پر گہما گہمی ابھی کم نہیں ہوئی تھی
سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم تھا
ابو قاسم پہلے ہمیں
پرانے لُد شہر میں علیہ بٹ سٹریٹ Alia Bet Street پر واقع سینٹ جارج کے مقبرےاور چرچ پر لے گیا جس سے ملحقہ ایک مسجد بھی ہے جس کا نام مسجد خضر ہے۔
سینٹ جارج کو عربی میں “ القدیس جرجس” کہتے ہیں سینٹ جارج شہنشاہ روم ڈائیوسلٹئین Diocletian کی فوج میں سالار تھا لیکن جب اس نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تو شہنشاہ روم نے غصب ناک ہو کر ۳۰۳ ء میں اسے قتل کروا دیا
۳۶۱ء میں بزنطینی شہنشاہ جولین Julian نے اس کی قبر پر ایک شاندار مقبرہ اور چرچ تعمیر کروایا
۱۲۶۹ء میں مملوک بادشاہ بیبرس نے فلسطین فتح کیا تو اس نے اس چرچ کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کروائی
چرچ اور مسجد کی موجودہ عمارتیں اسی دور کی یادگار ہیں
جب ہم وہاں پہنچے تو مسجد ابھی تک کھلی ہوئی تھی اندر ہال میں اکا دکا نمازی صفوں پر بیٹھے نظر آرہے تھے لیکن چرچ بند تھا
میں نے ابو قاسم سے پوچھا کہ اس مسجد کو مسجد خضر کیوں کہتے ہیں لیکن وہ میرے اس سوال کا جواب نہ دے سکا اور نہ ہی اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب مجھے بعد میں تاریخ کے اوراق سے مل سکا ۔
سینٹ جارج کے مقبرے اور مسجد خضر کے مقابل ایک پرانی عمارت کے کھنڈرات نظر آرہے تھے ۔
پوچھنے پر ابو قاسم نے بتایا کہ یہ مملوک دور کی ایک مسافر سرائے کے کھنڈرات ہیں جس کا نام “ خان العلیل Khan al-Hilu ) ہے -
جو کسی زمانے میں حیفہ سے یروشلم جانے والی شاہراہ پر سب سے بڑی سرائے تھی ۔
ہم نے ابو قاسم کی اجازت سے مسجد خضر میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اور پھرباب لُد کی جانب روانہ ہوگئے جو وہاں سے صرف دو کلو میٹر دور
یروشالام ایونیو
Yerushalayim Ave
پر واقع ہے ۔
باب لُد ایک چوکور عمارت ہے جس پر ایک چھوٹا سا گنبد بناہے
یہ عمارت دراصل لُد شہر کی بیرونی فصیل کے مشرقی دروازے پر واقع ایک کنوئیں پر قائم کی گئی تھی
لیکن اب نہ تو وہاں کوئی فصیل باقی بچی ہے اور نہ کوئی داخلی دروازہ نظر آتا ہے صرف ایک یہ عمارت ہے جو نہ نجانے کب سے یہاں موجود ہے
ہم نے ٹیکسی سے اتر کر کچھ وقت باب لُد اور اس کے اردگرد بنے پارک میں گذارا
باب لُد کے سامنے کی جانب ایک بہت پرانا اور بہت بڑا چنار کا درخت ہے جس کے تنے کے گرد چبوترا بنا ہوا ہے
اس کے مشرقی سمت ایک محراب کے اندر لوہے کا بنا جنگلہ نما دروازہ تھا جس پر تالا لگا ہوا تھا اور باقی تین اطراف میں دو بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جن پر آہنی جالی لگی تھی
جب میں نے کھڑکیوں سے جھانک کر اندر دیکھا تو کاٹھ کباڑ اور اینٹوں کے ملبے کے درمیان زمین میں ایک بڑا سا سوراخ نظر آیا۔ جس پر جنگلہ لگا ہوا تھا یہ وہ کنواں ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو اس کنوئیں میں لٹکا دیں گے
باب لُد اسی کنؤئیں پر بنا ہوا ہے
رات کے اس پہر یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ موسم خاصا خنک تھا لیکن یہ خنکی ناگوار نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔ ہر طرف ایک گہرا سکوت گہری خاموشی چھائی تھی ۔ سڑک کے کنارے لگے کھمبوں پر لٹکتے بجلی کے بلب اندھیرے کو پوری طرح چاک کرنے میں ناکام نظر آتے تھے ۔
کبھی کبھار کوئی گاڑی اس خاموشی کو توڑتی سڑک پر سے گذر جاتی تھی۔ میں چنار کے اس درخت کے نیچے بنے چبوترے کے پاس جا کھڑا ہوا بلال ابو قاسم کے ساتھ باتیں کرتا باب لد کے پچھواڑے کی طرف نکل گیا تھا۔
باب لُد کے نواح میں ایک عجیب سی پراسراریت ، عجیب سی ٹھنڈک اورایک عجیب سی دھند چھائی تھی ۔ مجھے یہ سارا ماحول ایک طلسم کدہ لگا ۔ جیسے کسی نے کوئی جادو پھونک دیا ہو ۔ مجھے لگا جیسے میں بھی چنار کے اس بڑے درخت کی طرح اس عجیب ماحول کا حصہ ہوں ۔ اس وقت میری جو کفیت تھی میں اسے الفاظ کا روپ دے کر صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے سے قاصر ہوں ۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے بارے میں بچپن سے سنتا آیا تھا ۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ایک دن میں اس طرح اس مقام پر کھڑا ہوں گا جس کا ذکر حدیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے ۔ ان احادیث مبارکہ اور آپ ﷺ کی دجال کے بارے میں کی گئی پیشن گوئی سے شائید ہی کوئی مسلمان بے خبر ہوگا ۔ لیکن آج اس مقام پر کھڑے ہو کر جب میں نے اپنے دل میں دجال کے انجام کے بارے حدیث مبارک ﷺ کے الفاظ دہرائے کی کوشش کی اورپھر نظر اٹھا کر باب لُد کو دیکھا تو ملگجی روشنی اور ہلکی دھند میں لپٹا پراسراریت کا لبادہ اوڑھے وہ کمرہ نما باب لُد مجھے اسقدر وحشت انگیز لگا کہ مجھے اپنے جسم میں پھریری سی محسوس ہوئی میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے ۔ میرے رگ وپے میں سر سے لے کر پیر تک خوف وسنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ مجھے اپنی ٹانگیں بے جان اور سن ہوتی محسوس ہوئیں اور اس خنک موسم میں بھی ماتھے پر پسینہ آنے لگا ۔
میں پیشانی کے اس پسینے کو دائیں ہاتھ سے پونچھتا چنار کے درخت کے نیچے بنے اس چبوترے پر بیٹھ گیا اور گہری گہری سانسیں لے کر اپنی ہیجانی کفیت پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرنے لگا ۔ یوں تو پہلے بھی مجھے حدیث پاک ﷺ کے ان الفاظ کی حقانیت سے کبھی انکار نہیں تھا لیکن آج مجھے حدیث کے الفاظ مجسم صورت اختیار کرتے محسوس ہو رہے تھے۔
مجھے لگا جیسے ابھی یروشلم کی جانب سے ایک آنکھ والا دجال نمودار ہوگا ۔ اور بھاگتا ہوا باب لد کی اس عمارت میں آکر چھپ جائے گا اور پھرباب لُد کے گرد چھائی اس دھند میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی تلوار لہراتے ہوئے نکلیں گے اور اس کا سر قلم کرنے کے بعد اس کی لاش اس کنؤئیں میں لٹکا دیں گے ۔
میری چشم تصور ابھی مجھے یہ منظر دکھانے میں مصروف تھی کہ بلال ابو قاسم کے ساتھ مجھے پکارتا ہو اس طرف آگیا جہاں میں بیٹھا تھا اس کی آواز سن کر جیسے سب کچھ بکھر گیا میری چشم تصور کے سامنے لہراتا منظر کہیں گم ہو گیا ۔ میں چونک کر اٹھااور گم سم سا ان کے ساتھ ٹیکسی کی طرف چل دیا۔
لیکن ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد بھی میں اپنے خیالات کے گھوڑے کو قابو کرنے میں ناکام رہا ۔ میں سوچتا رہا کہ
چرخ نیلی فام نے لُد شہر کے کئی عروج و زوال دیکھے ہیں ۔
یہ شہر کئی بار اجڑا کئی بار برباد ہو ا پھر آباد ہوا ہے ۔
اس شہر کے خدوخال کئی بار بدلے
اور گردش دوراں کی زد میں آ کر فصیل شہر بھی مٹ گئی۔ ابو قاسم نے بتایا تھا کہ یہودیوں کو بھی رسول اکرم کی اس پیشن گوئی کا علم ہے انہوں نے کئی بار اس عمارت کو مٹانے اور گرانے کی بھی کوشش کی ہے لیکن نجانے کیسے یہ عمارت بچ جاتی ہے ۔ پتہ نہیں کیسے کوئی انجانی طاقت ان کو اپنے ان مذموم ارادوں میں کامیاب ہونے سے روک دیتی ہے ۔ باب لُد کی عمارت آج بھی یروشالم ایونیو کے کنارے اپنی جگہ پر قائم نظر آتی ہے اور اس کے سامنے موجود بوڑھا چنار بھی نجانے کب سے یہاں کھڑا ہے
ان کو تو دجال کا انتظار کرنا ہے اور ان دونوں کا وجود صرف اس لئے قائم ہے کہ انہیں تو میرے پیارے رسول اکرم ﷺ کے قول کی لاج رکھنی ہے کیونکہ انہوں نے اس جگہ کو دجال کی جائے قتل قرار دیا ہے تو پھر دجال اسی جگہ اپنے انجام کو پہنچے گا اس وقت تک باب لُد کو قائم رہنا ہے اسے کوئی نہیں مٹا سکتا ہے
باب لُد اور اس کے سامنے کھڑے چنار کے بزرگ شجر کو صدیوں سے دجال کا انتظار تھا
اور آج بھی وہ اس کے انتظار میں ہیں۔ پتہ نہیں ان کا انتظار کتنا لمبا ہے لیکن وہ انتظار میں ہیں ۔
بلکل اسی طرح جیسے یہودیوں کو
دجال ، عیسائیوں کو اپنے مسیح
موعود اور مسلمانوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتظار ہے