ہوم << وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک لایا - سعد الله شاہ

وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک لایا - سعد الله شاہ

تجھ کو دنیا کچھ نہیں کہتی لیکن مجھ کو پاگل تیری جیت ادھوری ہے اور میری ہار مکمل اس کے ملنے کی کیفیت اب تک یاد ہے مجھ کو جیسے صحرا سے گزرا ہو گہرا کالا بادل کیا کیا جائے ایک عجیب کیفیت سے گزر رہے ہیں یہ مبالغہ نہیں کہ ایک عجیب گھٹن ہے اندر اور کمال چھبن ہے۔

اک پل ایک صدی ہے مجھ کو اور میں سوچوں پل پل۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ سب مست ہو کر اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں اور عوام تماشہ دیکھنے کی بھی سکت نہیں رکھتی۔اسے اقتدار کے گندے اور لتھڑے ہوئے معاملات سے کیا لینا۔ابھی ایک کارٹون نظر نواز ہوا کہ جس میں سی ساSee saw دکھایا گیا جی ہاں وہی جس کے دو اطراف میں بچے بیٹھتے ہیں ایک بچہ وزن ڈالتا ہے تو دوسرا بچہ اوپر اٹھ جاتا ہے اور جب وزن ڈالے تو پہلے والا اوپر چلا جاتا ہے اچھا کیا کارٹونسٹ نے کہ ایک تو ہماری ساست کو بچوں کا کھیل کھیلتے بتایا۔ ہائے ہائے یہ کیسے لوگ ہیں کہ کسی کا نہ کوئی وقار اور نہ کوئی احترام۔یہ لوگ کس درجے تک گر گئے ہیں کہ پاتال میں چلے گئے ہیں ۔نوجوان نسل برباد ہو چکی۔ ان سیاست دانوں نے تو اس قسم کا اعتیار بھی نہیں رہنے دیا ساری قوم کے سامنے جھوٹی قسمیں اٹھا کر اللہ کو جان دینے کے دعوے کے ساتھ بھی صریحاً جھوٹ بولتے ہیں۔

سربراہ اسمبلی کے فلور پر اپنے جھوٹ کو سیاسی بیان کہہ دیتا ہے دوسری طرف 35 پنکچروں والی بات کو مذاق کہہ کر سچ کو پنکچر کر دیا جاتا ہے۔ میں کسی ایک کی بات نہیں کر رہا کرنی بھی نہیں چاہیے ایک بی بی یہاں تک کہہ جاتی ہے کہ میری باہر تو کیا یہاں بھی کوئی جائیداد نہیں حالانکہ جائیداد کو ان لوگوں کا مسئلہ ہی نہیں جہاں چاہا قابض ہو گئے سرکاری راستوں کو اپنے لئے کاٹ لیا۔بس کچھ نہ پوچھیے یہ باتیں بھی پرانی ہو چکیں دونوں طرف جھوٹ ۔۔ حرص ہوس میں اتنے اندھے کہ اپنوں کو بھی روند گئے ایسے ہی شعر ذہن میں آ گیا: کتنی خوش اسلوبیوں سے اس نے کاٹا یہ سفر پائوں پڑنے والے ہی نے آخر میرا سر لیا میں دوبارہ اس سی سا والے کارٹون کی طرف آتا ہوں کہ اس میں اصل خوبصورتی یہ دکھائی گئی ہے کہ اس سی سا یعنی اس تختے کا محور عوام کے سر کو دکھایا ہے کہ یہ سارا کھیل عوام کے سر پر کھیلا جا رہا ہے۔

یہ استعارا یا علامت ہرگز غلط نہیں کہ جو بھی آتا ہے عوام کا مذاق اڑاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اب حکومت کو کچھ مشکل فیصلے لینا پڑیں گے اور پھر وہ پٹرول‘ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیتا ہے گویا اس کی بقا عوام کو مصیبت میں ڈالنے پر ہی ممکن ہوتی ہے۔کیسی مزے کی بات ہے کہ وہ اپنے کارندے کی ناقص ترین کارکردگی کے باوجود اسے بیل آئوٹ کیسے دیتے ہیں دلاتے ہیں کہ بے چارے عوام ایک نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔نیا بڑا زخم پچھلے زخم سے توجہ ہٹا دیتا ہے کیا کریں بے چارے لوگ ان کی تو آہ و زاریوں میں عمر بیت جاتی ہے چلیے خورشید رضوی صاحب کا ایک رومانی شعر پڑھ کر خوش ہو جائیے: دو لفظ محبت کے جس نے بھی کہے اس کو افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی سیدھی سی بات ہے کہ جس کا اپنا وقار اور عزت نہ رہے تو وہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔اب دیکھیے پارلیمنٹ کا ہر مسئلہ عدالت میں جا پہنچتا ہے ۔

دوسری خطرناک بات یہ کہ جو ایک دو بڑے ادارے تھے وہ بھی اپنا اثرورسوخ کھو چکے ہیں تازہ مثال یہ کہ عدالتی حکم نظرانداز کرتے ہوئے 37رکنی پنجاب کابینہ نے حلف اٹھا لیا دوسری طرف پی ٹی آئی والے اس پر تبصرہ فرماتے ہیں کہ ن لیگ پھر سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والی ہے مگر وہ خود بھی نہیں سوچتے کہ انہوں نے عدم اعتماد کو ٹالنے کے لئے آئین کا کیا احترام کیا تھا کہ عدالتیں رات گئے کھل گئیں۔حالانکہ وہ عدم اعتماد ہونے دیتے تو ان کی نیک نامی ہوتی یہ کیسا عدم اعتماد تھا کہ اسے لانے والے اپنا اعتماد کھو چکے عوام کو مہنگائی کے شکنجے سے نکالنے آئے تھے مگر شکنجہ مزید کس دیا۔عوام کو تو اپنا چولہا جلانا ہے اور دوسرے مسائل کو حل کرنا ہے عدالت عدالت کھیلنے کا شوق تو بھرے پیٹ والوں کو ہے ویسے یہ پیٹ بھرنے والا محاورہ درست نہیں۔

یہاں نیت بھرنے کی بات ہے سب بدنیت ہیں: چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب ازدل بسوئے دیدہ شد مولانا روم کہتے ہیں کہ غرض اور لالچ انسان کی صلاحیتوں کو تباہ کر دیتی ہے حتیٰ کہ وہ اندھا ہو جاتا ہے یا پھر دل کے پردے اس کی آنکھوں پر آ پڑتے ہیں وہ اپنے دل سے دیکھتا ہے یا اس کا دل دیکھتا ہے آنکھیں نہیں اور دل تو دنیا کی ہوس سے پر ہے۔مزے کی بات تو یہ دونوں ہی عدالتی فیصلوں کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں مگر عمل ہرگز نہیں کرتے۔اور وہ ہو بھی گئے ہیں تو ہم کو یہ سب عجیب لگتا ہے کچھ ان کو زبانی دعوت دے رہے ہیں تو کچھ عملی طور پر کہ آپ کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں کیوں آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے بعد اجالا نہیں اندھیرا ہے ایجنڈا بتاتے ہوئے ڈر لگتا ہے مگر یہ ایجنڈا پاکستان کے لئے اچھا نہیں نوجوان ہیجان میں مبتلا ہیں سخت بے روزگاری ہے۔

اب بات کریں تو یہ پچھلی صدی کی معلوم ہو گی کہ کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان کیا ہوئے آزادی کا بیانیہ سب کچھ کھا گیا لیکن یہ طے نہیں کہ کس سے آزادی یہ تو طے ہو گیا کہ یہ امریکہ سے آزادی نہیں کہ اس سے تو ہم دوستی چاہتے ہیں۔ اب بے گھری کی بات تو چھوڑیں جو تھوڑی بہت مکان بنانے کی سکت رکھتے تھے وہ بھی ڈھے گئے سریا سو روپے سے اڑھائی سو روپے کلو تک پہنچ چکا بجری پچپن سے ایک سو پچاس روپے جا پہنچی اب کسی کے سر میں تعمیر کا سودا ہو تو نکال دے وہ اگر کوئی گھر بنا رہا ہے تو وہ کسی بھی صورت ایماندار سرکاری ملازم تو ہو ہی نہیں سکتا۔مگر یہ فضول سی بات صاحبان اقتدار کے حساب کتاب میں تو سرے سے نہیں ایک شعر: وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک لایا اور میں تھا کہ برابر ہمہ تن گوش رہا