آنکھیں نم ہیں، دل شدید غم میں ڈوبا ہوا ہے، روح بے چین ہے، جذبات قابو سے باہر ہیں۔ دل کرتا ہے کہ زور زور سے چیخ کر رو سکوں۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بس یہی سوچ کر جی رہے ہیں کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ کیا اس دنیا میں انسانیت باقی رہ گئی ہے؟ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں؟ یہی سوچیں مجھے شدید اذیت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ایک بے قراری اور اضطراب کی کیفیت میں زندگی گزر رہی ہے۔
غزہ کے حالات انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں، کھانے پینے کے لالے پڑ چکے ہیں۔ صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ ہمارا سامنا ایک بزدل دشمن سے ہے، جو اجناس کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے، جو عورتوں، بچوں اور معصوم بے گناہوں سے اپنا بدلہ لیتا ہے۔ ہمارا دشمن اتنا عیار اور مکار ہے کہ اسپتالوں کو بھی نشانہ بناتا ہے اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ وہاں مجاہدین چھپے ہوئے تھے۔ ان کی بزدلی کی انتہا یہ ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے کیمپوں تک کو نہیں بخشتے اور ان پر اندھا دھند بمباری کرتے ہیں۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں بھی دشمن کی عورتوں کا احترام کرتے رہے، ان کے بوڑھوں اور بچوں کو تحفظ دیتے رہے۔ ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے گھروں کو امان کا مرکز قرار دیا۔ ہماری روایت محبت، شفقت اور رواداری کی ہے۔ ہماری تابناک تاریخ گواہ ہے کہ سلطان الپ ارسلان نے رومن بادشاہ دیوجن کو شکست دینے کے باوجود اسے معاف کر دیا۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں بہت سی جنگوں کے بارے میں پڑھا ہے، لیکن ان جنگوں کے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہوا کرتے تھے۔ مگر اس جنگ میں اسرائیل نے انسانیت کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ آخر انہیں یہ جرات و ہمت کس نے دی؟
یقیناً یہ ہمت ہم مسلمانوں نے خود دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہود کے بارے میں فرماتا ہے:
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ ٱلنَّاسِ عَلَىٰ حَيَوٰةٍۢ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍۢ ۖ" (سورة البقرة، آیت 96)
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا۟ يَكْفُرُونَ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَيَقْتُلُونَ ٱلْأَنبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ" (سورة آل عمران، آیت 112)
یہ جرات انہیں اس لیے ملی کہ ہم خاموش رہے۔ 57 اسلامی ممالک ہونے کے باوجود، جدید ترین اسلحہ، دفاعی نظام اور بہترین افواج کے باوجود ہم اپنے مظلوم بھائی بہنوں کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ یہ ہماری سب سے بڑی بے حسی اور نااہلی ہے۔
ہر طرف سے دشمن ہم پر جھپٹ رہے ہیں۔ مشرق، مغرب، شمال اور جنوب،ہر سمت سے دشمن اپنی چالاکیوں اور سازشوں کے ساتھ ہمیں گھیرنے میں مصروف ہے، اور مسلمانوں کے مکمل خاتمے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، لیکن ہم بے خبر سو رہے ہیں۔ اگر آج ہم نے ایک مؤثر اور جامع حکمت عملی مرتب نہ کی تو پوری امتِ مسلمہ ایک خوفناک دور سے گزرنے والی ہے ،ایسا دور جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
تبصرہ لکھیے