"میں اب کسی کی فیس بک پر فرینڈ ریکوسٹ قبول نہیں کرتا۔
میں کسی کی پوسٹ کو لائک اور کمنٹ نہیں کرتا۔
میں کسی اجنبی نمبر کی کال نہیں سنتا۔
میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں کہ میں میسنجر میں آنے والے میسجز کا ریپلائے کر سکوں۔"
"میں کئی کئی دن واٹس اپ دیکھتا ہی نہیں ۔"
یہ جملے آپ نے بھی شاید کئی بار سن رکھے ہوں۔ یہ وہ سطریں ہیں جو ذرا سی شہرت پانے والے افراد محفلوں میں کسی نہ کسی کو ضرور سنا دیتے ہیں، جیسے کہ وہ اب عام انسان نہیں رہے بلکہ ایک خاص مخلوق بن چکے ہوں۔ ان باتوں میں ایک ایسا نفسیاتی پہلو جھلکتا ہے جسے "خود پسندی" یا "احساسِ برتری" کہا جا سکتا ہے۔
اس قسم کی باتیں کرنے والے لوگ اکثر ذہنی طور پر عدمِ تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اندر سے شاید خود کو غیر اہم محسوس کرتے ہیں، مگر جب انہیں ذرا سی مقبولیت ملتی ہے، تو وہ اسے سنبھال نہیں پاتے۔ ان کی شخصیت میں توازن اور عاجزی کی بجائے انا، خودنمائی اور دکھاوے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
ایسے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دوسروں سے دوری اختیار کر کے، ان کے پیغامات کا جواب نہ دے کر، یا خود کو مصروف ظاہر کر کے وہ زیادہ قابلِ احترام نظر آئیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عظمت ہمیشہ انکساری میں ہوتی ہے۔ بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو بڑے ہو کر بھی چھوٹوں سے رابطہ رکھتے ہیں، عزت سے پیش آتے ہیں، اور ہر ایک کی بات سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
دوسروں کو نظر انداز کرنے والا، خود کو سب سے الگ اور برتر سمجھنے والا شخص درحقیقت خود کو تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہوتا ہے۔ شہرت وقتی ہو سکتی ہے، لیکن خلوص اور انسانیت کی خوشبو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
یاد رکھیے، اصل بڑائی اس میں نہیں کہ کتنے لوگ آپ کو جانتے ہیں، بلکہ اس میں ہے کہ آپ کتنے لوگوں کا دل رکھتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے