ہوم << مختصر ترین : ضیاءاللہ محسن

مختصر ترین : ضیاءاللہ محسن

ازراہ تففن کسی نے یوں ہی کہا ہوگا کہ زندگی اگر چار دن کی ہے، تو ٹسٹ میچ پھر پانچ دن کا کیوں۔۔۔!!
بات تو ٹھیک ہے۔ ویسے ہماری زندگی بھی تو ایک "ٹسٹ کیس" ہی ہے۔
دنیا میں ترقی جس رفتار سے"پھیل"رہی ہے، اُس کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے مصروفیات کے باعث وقت بھی سکڑ تا جا رہا ہے۔ انسانی فطرت تغیر پزیر واقع ہوئی ہے۔ جو ہمیشہ قلیل وقت اور کم مشقت میں ذیادہ نتائج حاصل کرنے کی طرف مائل رہی ہے۔ تبدیلی ازل سے انسانی جبلت کا خاصہ رہی ہے۔ جو اچھی بات ہے۔ لیکن تبدیلی اگر "انقلاب ذدہ" ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
بات کہاں چل نکلی۔۔۔واپس آتے ہیں!!
جی!تو قارئین! اب پانچ دن کے ٹسٹ میچ والی بات بھی پرانی ہوچکی ہے ، یہ انقلابی دور ہے۔ ون ڈے کرکٹ کی ایجاد کے بعد ٹی-ٹوینٹی T-20نے بھی تہلکہ مچا رکھا ہے۔ بلکہ عرب امارات میں تیز رفتار ترقی اور وقت کی قلت کے باعث ٹی-ٹین T-10 میچز منعقد کروانا عبدالرحمٰن بخاظر کا کارنامہ ہے۔شُنید ہے کہ مستقبل میں کرکٹ محض ایک عدد"سُپر اوور"تک محدود ہوجائے یا صرف ٹاس پہ ہی ہار جیت کا فیصلہ ہونے لگے گا۔
ادبی دنیا کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مختصر سے مختصر ترین کی طرف سفر جاری ہے۔ حیران کن طور پر مختلف اصناف و اسالیب کو اختصار کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا ایک منفرد فن بنتا جا رہا ہے۔ مختصر کہانیوں اور افسانچہ نگاری کے بعد سو الفاظ کی کہانی نے رواج پکڑا۔ مبشر علی زیدی اور علی اعجاز کے کہا کہنے۔۔۔
اب تو بات پچاس لفظوں کی کہانی تک جا پہنچی ہے........ پہلا نام اس حوالے سے مریم خالد Maryam Khalid کا تھا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے.. ہفت روزہ "خواتین کا اسلام" میں وہ اس اسلوب کے ساتھ بہتر انصاف کر رہی تھیں۔ 23 اگست 2016 کی رات اللہ کو پیاری ھوگئیں.
گزشتہ دنوں ایک صاحب کی 20 لفظوں مشتمل "کہانی" دکھائی دی۔ زبردستی جسے کہانی کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن محض چار نامکمل جُملوں کا بے ربط جوڑ ۔۔۔۔!! یہ اسلوب دل کو اچھا نہیں لگا.
کہانی تو وہی کہلانے کی حق دار ہوگی کہ جس میں کہانی پن نمایاں ہو۔ کسی بھی نقطہ نظر کا احاطہ کرتے ہوئے اختتام ایک نتیجے پر منتج ھو۔
البتہ مختصر کہانی کو ایک رعایت دی جاسکتی ہے کہ واضح اختتام نہ بھی ممکن ہو تو کسی ایسے جُملے پہ قلم روک لیا جائے جہاں قاری نتیجہ خود اخذکر سکے۔
دنیا کی مختصر ترین کہانی کونسی ھے؟ زرا آپ بھی اس کہانی کو پڑھیے:
" دنیا کا آخری انسان گھر کے صحن میں بیٹھا تھا،اچانک دروازے پہ دستک ہوئی"
یقینا" یہ دلچسپ کہانی ہے۔ جس میں مرکزی خیال، منظر کشی، تجسس اور اختصار،یہ سب چیزیں موجود ہیں۔
نثر کے بعد اب شاعری میں بھی ارباب۔سخن اپنے فن کو محدود الفاظ کی زنجیر پہنا کر صفحہ۔قرطاس پہ منتقل کرنے لگے ہیں۔
یک مصرعی مگر جامع مفہوم کی حامل شاعری کے بانی شاید سعود عثمانی Saud Usmani صاحب ہی ہیں۔ ذرا ان کی نظم ملاحظہ کیجیے۔
"دل کا اپنا دماغ ہوتا ہے"
خوبصورت تخیل اور بہترین نظم ہے۔
اسی طرح عابی مکھنوی Aabi Makhnavi اس صنف کے حوالے سے دوسرا نام ہے۔ ان کی یک مصرعی نظم پہ نظر ڈالیے:
"زوال اپنے عروج پر ہے"
قارئین! ادبی دنیا میں جاری "مختصر ترین" ادب پاروں کے بارے میں کوئی صاحب۔علم مزیدآگہی رکھتا ہو تو براہ۔کرم وہ ہمارے ساتھ ضرور شیئر کرے۔ تاکہ ہم بھی استفادہ کر سکیں۔...

Comments

Click here to post a comment