جب کائنات کی تخلیق کی نوبت آئی اور نور و ظلمت کی سرحدوں پر زندگی نے آنکھ کھولی، تب عشق نے سب سے پہلا درس جو حاصل کیا، وہ ادب تھا۔ عشق، اگرچہ خود آتشِ سوزاں ہے، مگر جب تک وہ ادب کی چادر میں لپٹا نہ ہو، وہ صرف ایک وحشی شعلہ ہے جو نہ فقط خود کو جلا دیتا ہے، بلکہ ہر اُس ہستی کو بھسم کر دیتا ہے جس سے وہ وابستہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب، محبت کے تمام قرینوں میں پہلا قرینہ ہے—ابتدائے شعورِ عشق بھی ادب سے ہے، اور انتہائے جمالِ وصل بھی اسی کے سائے میں محفوظ ہے۔
محبت کی ہر شکل، خواہ وہ ماں کی ممتا ہو، مرشد کی عنایت ہو، دوست کا خلوص ہو، یا معشوق کی جلوہ گری—سب کی جڑوں میں ادب کی نمی موجود ہوتی ہے۔ یہ وہ پوشیدہ قوت ہے جو جذبات کو حدود عطا کرتی ہے، الفت کو سرکشی سے بچاتی ہے، اور عشق کو انا کی راکھ میں تحلیل ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔
وہ محبت جس میں زبان بے لگام ہو، نگاہ بے حجاب ہو، طرزِ تخاطب گستاخ ہو، اور رویہ بے توقیر ہو—ایسی محبت دراصل دل کی کمزوری تو ہو سکتی ہے، لیکن روح کی بلندی ہرگز نہیں۔ کیونکہ ادب وہ آئینہ ہے جس میں محبت اپنی اصل صورت دیکھتی ہے۔ ادب وہ دربان ہے جو محبت کو بےحیائی کے کوچے میں قدم رکھنے سے روکتا ہے، اور وفا کے قلعے میں داخلے کی سند عطا کرتا ہے۔
اولاد کا محبت سے والدین کو پکارنا، لیکن ادب کے بغیر—بے فیض!
شاگرد کا استاد سے محبت جتانا، مگر بےادب ہونا—بے برکت!
عاشق کا معشوق کی خاطر دنیا کو تیاگ دینا، لیکن اس کے وقار و پردے کا لحاظ نہ رکھنا—بے اصل!
حضرت رابعہ بصری نے عشقِ حقیقی کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے پہلے ادب کی زمین پر سجدہ کیا۔ مولانا روم نے شمس تبریز سے محبت میں ادب کی حد کو نہ فقط چھوا، بلکہ خود کو فنا کر دیا۔
میر، غالب، اقبال—ہر ایک نے لفظِ عشق کو جب قرطاس پر اتارا، تو پہلے ادب کے آب سے قلم دھویا۔
ادب، دراصل محبت کا پہلا درجہ ہے؛
یہ وہ کنجی ہے جو دلوں کے قفل کھولتی ہے، اور وہ زنجیر ہے جو جذبات کو بکھرنے سے روکتی ہے۔
آج کے دور میں محبت ایک نعرہ بن چکی ہے، ایک سرخی، ایک لمحاتی کشش۔
لیکن اگر اس محبت کے لبوں پر ادب کا تبسم نہ ہو، تو وہ سراب بن جاتی ہے۔
ایسے رشتے لمحاتی ہوتے ہیں، جن میں الفاظ بلند ہوں، آوازیں تیز ہوں، نظریں بے باک ہوں، اور طبیعتوں میں عاجزی کا فقدان ہو۔
سچ یہ ہے کہ جس محبت میں ادب کا ذائقہ نہ ہو، وہ صرف خواہشات کی ایک مٹیالی جھلک ہے، نہ کہ کوئی پاکیزہ تعلق۔
سو اے صاحبانِ عشق!
اگر تمہاری محبت میں ادب کی زنجیر نہ ہو، تو وہ سرکش گھوڑا ہے جو تمہیں کسی کھائی میں لے جائے گا۔
اور اگر تمہاری چاہت میں ادب کی لو جل رہی ہو، تو وہی عشق تمہیں صراطِ مستقیم پر لے جا سکتا ہے—خواہ وہ عشقِ مجازی ہو یا حقیقی۔
کہا جاتا ہے:
"عشق بغیرِ ادب، مثلِ خارِ بیابان است—جو نہ خود کو پھول بنا سکے، نہ کسی کو زخم سے بچا سکے۔"
آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ:
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں،
جو بےادب ہو، وہ محبت کے قابل ہی نہیں۔
تبصرہ لکھیے