کام سے تھک کر ٹی وی آن کیا تو ہم ٹی وی پر نئے ڈرامہ ”ہتھیلی“ کی پہلی قسط دیکھنے کا اتفاق ہوا. ابتدائی حصے میں یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ جو اپنا حلیہ اسلام کے مطابق ڈھال لے، وہ تو ولن کا کردار ادا کرنے میں کسی سے کم نہیں. پردہ کرانے والے یا ایسی سوچ رکھنے والے تنگ نظر ہوتے ہیں. ہر کسی کو انفرادی اور شخصی آزادی کا حق حاصل ہے، وہ جیسے چاہے زندگی گزارے. اور اگر آپ کے گھر والے ایسے شخص کو آپ کی شادی کے لیے چن لیں جو اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پردے کا کہے تو وہ تو ہوگیا تنگ نظر اور گھٹیا.
شادی سے انکار کسی معاشرتی برائی کی وجہ سے نہیں بلکہ پردہ کرانے والی سوچ کی وجہ سے، مسلمانوں کے معاشرے میں یہ کس قدر عجیب بات ہے. اسےگھٹیا اور تنگ نظر قرار دیا جا رہا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے. گویا مسئلہ آپ کو لڑکے سے نہیں بلکہ اس کی پردہ کروانے والی سوچ سے ہے.
مسلمان کہلوانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پردہ کرنا یا کروانا تنگ نظر ہونے کی نشانی نہیں بلکہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول پاك صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے. خود حضور پاك صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور امہات المؤمنین اِس کا اعلی نمونہ تھیں. ایک روایت کے مطابق جب آپ نے ایک نابینا شخص سے پردے کا حکم دیا تو پوچھا گیا کہ وہ تو نابینا ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نابینا سہی مگر اللہ پاك نے آپ کو تو آنکھیں عطا کی ہیں.
ڈرامہ دیکھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور تھی کہ ہمارے ٹی وی چینلز کس ڈگر پر چل پڑے ہیں اور یہ کیسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں، اور یہ کس معاشرے کی عکاسی کی جا رہی ہے، at least یہ اسلامی تو نہیں . اگر ہمارا میڈیا ایک اچھے اور مثالی معاشرے کی تشکیل میں ایک استاد والا کردار ادا نہیں کرسکتا تو کم از کم اس کے بگاڑ میں بھی حصہ نہ ڈالے.
تبصرہ لکھیے