ہوم << کتے، کتا پن اور ہماری خواہشات - نورین تبسم

کتے، کتا پن اور ہماری خواہشات - نورین تبسم

ہماری خواہشیں گلی میں پھرنے والے کتوں کی طرح ہیں کہ جن سے ڈر کر بھاگو تو پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ بھونک بھونک کے ساری دُنیا کو مڑ مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ہمارا تماشا بنواتے ہیں۔ کوئی ہنستا ہے تو کوئی تمسخر اُڑاتا ہے۔ اِن کے پاس سے جی کڑا کر چُُپ چاپ گزر جاؤ تو کچھ بھی نہیں کہتے۔
کتا ہمیشہ کتا ہی رہتا ہے چاہے وہ گلی کا آوارہ کتا ہو یا گھر میں بڑی چاہ سے رکھا گیا پالتو کتا۔ اُس کی خصلت کبھی نہیں بدلتی۔ فرق صرف حسب نسب کا ہے۔ اُس سے لگاؤ کا ہے۔ کبھی گلی میں پھرنے والا کتا بھی آڑے وقت پر کام آ سکتا ہےاگرچہ رہتا وہ ”دھوبی کا کتا ہی ہے جو گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا“۔
کہا گیا کہ ”دل کو خواہش میں نہ مرنے دو بلکہ خواہش کو دل میں دفن کر دو“۔ لیکن اگر خواہش کو کتے کے مماثل جانا جائے تو کتا کتنا ہی اعلٰی نسل کا ہو، کتنا ہی پیارا ہو، مالک کا وفادار ہو اور اُس کی خاطر جان کی بازی لگا کر امر ہی کیوں نہ ہو جائے، اُس کی لاش کے پاس بیٹھ کر آنسو تو بہائے جا سکتے ہیں، اُس کا سوگ تو منایا جا سکتا ہے، ایک دلگداز یاد کی صورت اُسے اپنے گھر کے باغیچے میں دفن تو کیا جا سکتا ہے لیکن کبھی بھی اُس کی قبر گھر کے اندر نہیں بنائی جاتی۔
گھر وہ پاکیزہ جگہ ہے جہاں دُنیا کی اونچی نیچی غلاظت بھری شاہراہ پر ساتھ دینے والے جوتوں کے داخلے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور انسان کا دل بھی ایسی ہی اِک جگہ ہے جہاں اُن محبتوں اور خواہشات کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں جو ہمارے لیے بڑی کیف آور اور زندگی بخش ہوتی ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے گھر میں چاہے جتنے بھی پسندیدہ مہمان آجائیں، مہینوں بلکہ سالوں بھی رہ جائیں، خوب ہلہ گلہ کریں، لیکن اُن کو جانا ہی پڑتا ہے۔ آخر میں گھر اور اُس کے مکین ہی رہ جاتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا۔
.........
رنگ نسل اور حسب نسب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو کتے بہت ہی کتے ہوتے ہیں۔ قصور اُن کا نہیں، مسئلہ انسان کا ہے۔ انسان بھی عجیب ہے۔ کتوں سے پیار کی خاطر انسانوں کی پروا نہیں کرتا۔ انسان کو کتوں سے کم تر سمجھتا ہے لیکن خود اسے کتا کہہ دیا جائے تو مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے۔
”کتے“ کا لفظ اور اس کا نام ذہن میں آتے ہی بھوک اور بھونکنے کا تصور آتا ہے جو انسان اور اس کے رویوں کا استعارہ بھی ہے۔ انسان کی پیٹ گھڑی اسے بھوک سے بےحال کرتی ہے تو وہ کتوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اور بھرے پیٹ کے لوگوں کے لیے کتے پالنا، اُن کی سیوا کرنا، اپنے ہاتھ سے کھلا کر ان کی بھوک مٹانا اُن کی اپنی دُنیا کا سب سے بڑا لذت بخش مشغلہ ہے چاہےاس شغل سے دوسروں کو کتنی ہی اذیت کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔ ”اذیت“۔ انسان کی بھوک نظرانداز کر کے حیوان کو فوقیت دینے کی نہیں۔ اذیت کا سبب کتوں کا وہ کتا پنا ہے جو وہ بھوک مٹا کر بھی نہیں چھوڑتے یا شاید انسان ان کی اصل بھوک سے لاعلم رہتا ہے۔
جسم اور جنس کے درمیان سر اٹھاتی بھوک چاہے کتوں کی ہو یا انسان کی، بہت بےمہر ہوتی ہے، اپنے نفع نقصان کی غرض سے آزاد، انتہائی قابلِ نفرین اور قابلِ رحم بھی۔ یہی بھوک انسان کو کتوں کے مقابل لا کھڑا کرتی ہے تو کبھی اپنے شرف کی پہچان بھی بھلا دیتی ہے۔
ابراہام لنکن کا کہنا تھا ”تمہاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے“۔ کتوں کا بھونکنا اُن کا وہ ”کتا پن“ ہے جو اُن کے چہیتے کے لیے اگر محض ادا ہے تو سزا ہے ان کے لیے جن کا ان کتوں سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا، پھر بھی انہیں ان کتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھگتنا پڑتا ہے۔ پڑوسیوں کے لیے ایک ایسا عذاب جو راتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دیتا ہے۔ بےحسی کا یہ عذاب بھی ہمارے جیسےملک میں ہی سر اٹھاتا ہے، باہر کے ممالک میں بھی کتے بہت ہی کتے تو ہوتے ہیں لیکں وہاں انسان ان کتوں کی نفسیات سمجھ کر اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ ایسی دوائیں دیتے ہیں کہ کتے بلاوجہ اپنا کتا پن نہ دکھائیں۔ وہ اپنے پالتو کی ہرضرورت کا خیال رکھتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کبھی انجانے میں ان کے کتے کی وجہ سے کسی کو ذہنی اذیت ہو تو نہ صرف سزا کے لیے تیار ہو جاتے ہیں بلکہ آئندہ محتاط بھی رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو زیادتی چاہے کسی بھی سطح پر ہو، شکایت کرنے والا اپنوں کی حمایت کھو بیٹھتا ہے۔ اصل میں ہمارے ہاں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا رواج نہیں۔ ہم تو بڑی بڑی زیارتیوں پر خود ساختہ ”صبر“ کی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ کیچڑ کی شکایت کرنے سے بلاوجہ چھینٹے ہی اُڑیں گے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے تو ویسے ہی بہت تمیزدار ہوتے ہیں۔ اُن کے نزدیک لڑائی جھگڑے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا ایشو بنانا انتہائی بےوقوفی اور وقت کا زیاں ہے۔
آخری بات
کتے کتے ہی رہتے ہیں اور ہمیشہ کتے ہی رہیں گے کہ یہ ان کی جبلت اور فطرت ہے، اور ان کی حیوانیت کی دلیل بھی، جس پر یقین رکھنا ہماری عقل کی سلامتی کا امتحان ہے لیکن انسان جو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے، اس کے رویوں کا کتا پن برداشت کرنا ہی اصل آزمائش ہے۔

Comments

Click here to post a comment