ہوم << کربلا کا سبق کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

کربلا کا سبق کیا ہے؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش کسی نے اسے محض بنو ہاشم اور بنو امیہ کی چپقلش بتایا اور بنو امیہ و دیگر کو سینگوں پر لے لیا. کسی نے اسے خروج کہہ ڈالا اور لگا ہمیں ”اصولِ“ دنیا داری سمجھانے.
جناب اس ضمن میں دو باتیں یاد رکھ لیجیے.
قربان ہونے والا اس روایت کا امین تھا جو واضح طور اعلان کرتی ہے کہ ”اِس فاطمہ کی جگہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے“. یعنی یزید کی جگہ کسی بھی قبیلہ، یہاں تک کہ بنو ہاشم کا بھی کوئی فرد ہوتا لیکن اخلاق و کردار یزید والا رکھتا تو امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی بھی ایسے ہی گرفت کرتے جیسا کہ یزید کے لیے ارادہ فرمایا.
دوسرا یہ کہ امام حسین کی کربلا سے پہلے کی زندگی بھی ہمارے سامنے ہے. کیا معمولات تھے ان کے؟ سیاسی جوڑ توڑ کبھی ان کی مجالس کا محور رہا؟ کیا دین کی تبلیغ، اور اس کی درس و تدریس کے علاوہ بھی ان کے کوئی دیگر مشاغل رہے؟
کربلا کا واقعہ ہو جاتا ہے، اب جبکہ عوامی ہمدردی بھی حاصل ہے تو کتنے لشکر ترتیب دیے حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے؟ کیا انہوں نے وہی کام جاری نہیں رکھا جو امام حسین کا تھا، دین کی تبلیغ اور حکمت کا بیان ؟
دوسری طرف یہ دیکھ لیجیے کہ یزید کے معمولات مسند اقتدار پر بیٹھنے سے پہلے کیا تھے. تخت نشینی کے بعد ان میں کچھ بھی بہتری آئی؟ یا اللے تللے اور بڑھ گئے؟ وہ دوست جو کہتے ہیں کہ یزید کربلا کے واقعہ سے آزردہ ہوا، کیا بتا سکتے ہیں کہ کربلا کے بعد اس کے کردار یا طرز حکومت میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا اس نے عملی ندامت کا اظہار کیا یا حرمین پر فوج کشی کر دی؟
تاریخ، کسی ایک دن، یا اس دن واقع ہونے والے کسی واقعہ کا نام نہیں، تاریخ ایک سیاق و سباق کا نام ہے. اس ایک دن پر سب فیصلے مت کیجیے، یہ دیکھیے کہ تناظر کیا ہے. ماقبل اور مابعد کیا حالات تھے، آیا اس واقعہ نے کسی کا طرز عمل بدل دیا یا اس کی مضبوطی اور کمزوری، بالترتیب، اور بھی واضح کر دی.
تاریخ کا کمال یہ ہے کہ ایک دن یا واقعہ کی اساس معلوم کرنے کے لیے سالوں کا سفر آگے اور پیچھے کرنا پڑتا ہے. پھر بات واضح ہوتی ہے. اس سے کم پر فیصلہ ہمیشہ اپنے اندر تضادات لیے ہوتا ہے.
مندرجہ بالا گفتگو سے تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
بنو امیہ کی جگہ کوئی بھی ہوتا، امام عالی مقام کا اقدام یہی ہوتا. اس کی بنیاد نہ قبائلی عصبیت تھی اور نہ اقتدار کی طلب.
اس واقعہ نے عزیمت اور حرص کو ممیز کر دیا. عمومی سطح پر حر اور ابن زیاد اس کے دو استعارے بن گئے.
حق اور باطل اس جنگ سے پہلے بھی واضح تھا، اس جنگ اور اس کے بعد کے واقعات نے اس کو پتھر پر لکیر کر دیا.
اس کے بعد جو کچھ ہے وہ ہماری ذاتی پسند و ناپسند ہے، ہماری انا ہے، ہمارا مسلک ہے یا پھر تعصب. اسے ہم نے فرقہ بازی کا میدان بنا لیا یا سیاست کا. اس کی جوابدہی ہمیں الگ سے کرنا ہوگی.
اللہ تعالی کے ہاں صرف سچی گواہی کی وقعت ہے. باقی سب، محض کُوڑ کباڑ.