ہوم << حسین تابوت کی خواہش - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

حسین تابوت کی خواہش - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

وہ تیس پینتیس کے اریب قریب کا میانہ قد قدرے فربہ جسم کا گورا چٹا مرد تھا سر کے بال درمیان سے اڑے ہوئے.
جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ لوگوں کے گھیرے میں آنکھیں موندے چت لیٹا ہوا تھا. گویا سو رہا ہو. اتنے بےشمار لوگ تھے لیکن سکوت ایسا تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی دھماکے کی مانند سنائی دیتی.
اس نے گہرے نیلے رنگ کی شلوار پہنی ہوئی تھی اور قمیض کی جگہ صرف بنیان تھی.
اس کے ساتھ موجود خاموش ہجوم کے لباس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ افغان ہے. بڑی بڑی پگڑیاں اور کھلے گھیر والی شلواریں. کمر پر کارتوس کی بیلٹیں اور مونڈھدوں پر بندوقیں.
عجیب بارات تھی جس کا دولہا سو رہا تھا.
اور عجیب دولہا تھا جو گھوڑے کے بجائے اسٹریچر پر لایا گیا تھا.
اس کی سہرا بندی اس صورت کی گئی تھی کہ اس کے دونوں بازو اس کی شلوار کے نیفے کے اندر کر کے ازار بند سے مضبوط گرہ لگا دی گئی تھی تاکہ وہ ادھر ادھر نہ جھولیں. اس کے پائوں کے دونوں انگوٹھے بھی ایک پٹی کے ذریعے باندھ دیے گئے تھے.
میں اور میرے ہم جماعت یہ منظر پہلی منزل سے دیکھ رہے تھے نیچے شعبہ طب شرعی (فارینزک میڈیسن)کا صحن نما برآمدہ تھا. یہاں دائیں ہاتھ پر ایک کمرے میں پولیس چوکی تھی جس میں ایک حوالدار یا سپاہی آنے جانے والی لاشوں کی رجسٹریشن کیا کرتا تھا. وہیں پارکنگ تھی. جہاں پولیس وین اور موٹر سائیکل اور سائیکلیں کھڑی ہوتی تھیں. فارینزک میڈیسن کا مرکزی دروازہ باہر انارکلی میں دھنی رام روڈ پر کھلتا تھا. اس گیٹ کے بالمقابل سڑک پار ایک دولہا ہاؤس تھا گویا باہر زندگی اور اندر موت تھی. اس بیرونی صحن کو پار کر کے اندرونی ورانڈے میں داخلے کے لیے ایک لوہے کی سلاخوں والا گیٹ تھا جو لاک رکھا جاتا تھا اور ایک کانسٹیبل اس کی چوکیداری کیا کرتا. اسی اندرونی سلاخ دار دروازے کے ساتھ سے چپس اور کنکریٹ سے بنی بل دار سیڑھیاں اوپر تعلیمی شعبے میں داخل ہوتیں. نچلے ورانڈے کے دو اطراف میں انگریزی کے حرف ایل کی شکل میں کمرے بنے تھے جہاں آفسز، پوسٹ مارٹم کا کمرہ اور اس کی متعلقہ گیلری اور نعشوں کو محفوظ کرنے کے لیے قد آدم ریفریجریٹر موجود تھے جن کے سٹیل کی چمک اور ٹھنڈک ہیبت طاری کرتی تھی.
اسی کمرے کے سامنے نیوی بلیو شلوار اور بنیان میں ملبوس دلہا اپنے آخری بستر پر پڑا تھا.
کسی کاروباری جھگڑے میں بات بڑھ جانے پر اسے کاروباری حریف نے سینے میں گولی مار دی تھی جس سے وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا تھا.
اب اس کا خاندان پولیس رپورٹ کروانے کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کے لیے یہاں آیا تھا.
تمام مجمع پرامن تھا لیکن ان کے پاس اسلحے کی موجودگی اور ان کی نفری سہما دینے والی تھی. پولیس جب تمام لوگوں کو اندر آنے سے روکنے میں ناکام رہی تب پولیس نے مزید فورس منگوا لی. اور اس مجمع کے گرد گھیرا ڈال لیا. سیکیورٹی بریچ کے خطرے کے پیش نظر ہمارے لیکچر کینسل کر دیے گئے اور ہمیں شعبہ طب شرعی خالی کر دینے کا حکم ملا. تمام کلاس کالج کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے پہلی منزل کی بالکونی سے نیچے کا منظر دیکھ رہی تھی. وہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خطرے کو دیکھ کر خوفزدہ ہونے کے بجائے ایکسائٹمنٹ محسوس ہوتی ہے، تو ہم سب اس دن کے دلہا کو دیکھ رہے تھے اور اس کی جوانمرگی پر دکھی تھے. جس طرح اسے اسٹریچر پر رکھا گیا تھا، اس نے میرے دل میں ایک عجیب احساس پیدا کیا کہ اس نے کبھی سوچا ہوگا اس انجام کے بارے میں. اس لاش اور باقی انسانوں میں مختلف کیا ہے کہ یہ اپنے جھولتے بازو سنبھالنے کے لیے اپنے ازاربند کا محتاج ہے. مجھے اس کا نامکمل لباس اور لوہے کے ٹھنڈے اسٹریچر پر پڑا اس کا جسم انسان کی بےوقعتی محسوس ہوا.
اگلے روز وہی دلہا جب رخصت ہوا تو ایک خوبصورت رائل بلیو اور سکن کلر کے تابوت میں تھا. سفید کفن میں تھا اور اس کا چہرہ پرسکون تھا. اس کا خاندان تمام رات وہیں طب شرعی کے برآمدے میں بیٹھا رہا کیونکہ وہ اپنے پیارے کو اکیلا چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے. ان کے ساتھ کا سکون دلہے کے چہرے اور سواری سے جھلکتا تھا. ہاں اس لمحے مجھے لگا کہ انسان کو عزت دی گئی. کتنا خوبصورت تابوت ہے. کسی کلاس فیلو کی آواز ابھری. بہت سے سر تائید میں ہلے.
میرے دل میں اک سوال ابھرا. دوسرے کی اچھی چیز کو دیکھ کر اپنے لیے اسی چیز کی خواہش کرنے والی انسانی فطرت کیا اس حسین تابوت کی بھی خواہش رکھتی ہے؟