ہوم << آخر ایسا کیوں ہوتا ہے - عبداللہ عالم زیب

آخر ایسا کیوں ہوتا ہے - عبداللہ عالم زیب

کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پاک وطن کے تعلیمی اداروں میں معصوم بچوں کے بے ہودہ ڈانس کی پکچرز دیکھ کر حد درجے کی شرمندگی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا، کارواں کےدل سے احساس زیاں جاتا رہا. یقینا ان بچوں کو انعامات سے بھی نوازاگیا ہوگا، ان کی دل جوئی بھی کی گئی ہوگی، انہیں مستقبل میں آگے بڑھنے کا شوق بھی دلایا ہوگا، سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم اپنے کلچر اور اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال کر غیروں کی بےہودہ ثقافت اپنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں. میرے ناقص فہم کے مطابق اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ذرا تاریخ کے اوراق پر ایک نظر ڈالنی ہوگی تب ہمیں سمجھ آئے گی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ برصغیر پر انگریز کےقبضے سے پہلے کسی بھی جگہ دینی اور دنیاوی تعلیم میں تفریق نہیں تھی، مدارس کے نام کے ساتھ دینی و دنیاوی تعلیم دونوں کا تصور ذہن میں آتا تھا تبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے سائنسدان، انجینئرز، ڈاکٹرز، ماہرین فلکیات، ماہرین ریاضیات اپنے اپنے فن میں مہارت کے ساتھ ساتھ ان کو دینی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی. 1780ء سے پہلے ایک ہی نظام تعلیم ہوا کرتا تھا، لیکن جب انگریز برصغیر میں آیا تو اس نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر پابندی لگانا شروع کردی۔ 1830ء میں برطانوی بادشاہ ولیم جب انتہائی کوشش کے باوجود اس علاقے پر اپنا پنجہ مظبوط نہ کرسکا تو بالآخر اس نے وائسرائے ہند کے ذریعے لارڈ میکالے سے دریافت کیا کہ ہم کس طرح سے اس علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتے ہیں؟
لارڑ میکالے نے جوابا لکھا: میری تجویز یہ ہے کہ برٹش گورنمنٹ فوری طور پر مسلمانوں کا ایجوکیشن سسٹم تبدیل کرے، اس سے خود بخود بہت ہی کم عرصے میں کلچر اور اپنی ثقافت تبدیل ہو جائیں گے، غیر محسوس طریقے سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے مسلمانوں کو اپنا کلچر اپنی ثقافت پسماندہ لگنے لگے، وہ انگریزی طرزِ معاشرت پر فخر، اپنی ثقافت اپنی معاشرت کو گھٹیا تصور کرنے لگیں، اپنی روایات اور اپنی تاریخ کو بھول کر وہ اس کلچر میں ضم ہوجائیں گے۔ لارڈ میکالے کا منصوبہ برطانوی حکومت کو پسند آیا اور اس بھاری ذمہ داری کو انگریز حکومت نے لارڈ میکالے کے ہی کندھوں پر ڈال دیا. مسلمانوں کی تہذیب و تمدن پر شب خون مارنے والے لارڈ میکالے نے اس وقت کہا تھا کہ: میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسا نظام تعلیم بنا رہا ہوں جس کو پڑھنے کے بعد مسلمان بچے اگر عیسائی اور یہودی نہ بنے تو کم از کم مسلمان بھی نہیں رہیں گے.
میں یہ نہیں کہتا کہ میرے معاشرے کے نوجوان مسلمان نہیں رہے لیکن اتنا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں مغرب سے مرعوبیت پائی جاتی ہے، اپنے کلچر اور ثقافت پر فخر کرنے کے بجائے اس پر انھیں شرم محسوس ہوتی ہے. تبھی تو میرے ملک کے مستقبل کو بچپن سے نچایا جا رہا ہے. یاد رکھیےکہ کسی بھی قوم کے عروج و زوال کا قصہ ذہنی غلامی پر آکر ختم ہوجاتا ہے، جب کوئی بھی قوم ذہنی غلام بن جائے تو صرف آزادی کے اظہار اور آزادی کے نعروں سے وہ آزاد نہیں ہوسکتی، کیوں کہ جسمانی غلامی سے تو انسان ایک نہ ایک دن نکل ہی جائے گا لیکن ذہنی اور فکری غلامی کے چنگل سے نکلنا بہت ہی دشوار ہے.

Comments

Click here to post a comment