بچپن میں کزن نے چھیڑا، ماں نے سمجھایا پردہ رکھو، بھائی ہے، ماموں کا بیٹا ہے، چچا زاد ہے.
کچھ سال گزرے تو سکول کالج کے رستے میں کھڑے لڑکوں نے آوازے کسے. ماں کو شکایت کی تو ماں نے کہا پردہ رکھو. بھائیوں کو پتہ لگا تو ایسا نہ ہو کہ غیرت میں کوئی مسئلہ بن جائے. پردہ رکھو.
اگر باپ بھائی تک بات چلی بھی گئی تو گلی کے نکڑ پر کھڑے مجنوں تو غائب ہوئے یا نہیں، لڑکی ضرور پردے کے نام پر گھر میں بٹھا دی جائے گی. تعلیم سے ہاتھ دھوئے گی. کسی کے جرم کی قیمت اپنی تعلیم اور کیرئیر سے محرومی کی صورت میں چکا ئے گی. اور اگر تعلیمی سلسلہ بحال رہا، تب بھی خدا جانے کتنے پردوں کی امانت کا بوجھ اٹھائے تعلیم جاری رکھے گی.
شادی ہو گی تو میکے کے مان سلامت رکھنے کے لیے ادھر کے پردے رکھے گی اور میکے میں سسرال کی عزت بنانے کے لیے سسرالیوں کے پردے رکھتی رہے گی.
چند سال بعد شوہر کہیں متوجہ ہو جائے گا تو میکے اور سسرال کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اپنی وقعت بنائے رکھنے کے لیے شوہر کے پردے رکھے گی.
کام زیادہ تھا، اوور ٹائم کر رہے تھے، میٹنگ تھی، ایک مسکراہٹ کے ساتھ سارے پردے سنبھال سنبھال کر رکھتی عورت کبھی جب اپنی ذات کے اندر جھانکتی ہے تو تہہ در تہہ پردہ بن چکی ہوتی ہے.
حق کے لیے آواز اٹھائے تو مار کھائے، نہ اٹھائے تو حق گوائے. مار کھا کر زخم چھپاتی عورت، نیل پر ہنس کر ”گر گئی تھی“ کہتی عورت، پردے دار عورت، پردہ شعار عورت، دوسروں کے پردے رکھتی رکھتی اپنے آپ سے پردے رکھنے لگتی ہے. دوسروں سے زیادہ خود کو فریب دے رہی ہوتی ہے. یہ سب حقیقت سے فرار ہے. اگر پردے نہ رکھے تو ایک ایک کر کے ہر رشتہ کھو دے، زندہ نہ رہ پائے. اور صرف عورت ہی رشتے نہ کھوئے، اس کا شوہر اور بچے بھی رشتوں سے محروم ہو جائیں.
یہ جو جوائنٹ فیملی کو اکثر مرد فخر سے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے آپس کے اختلافات کے باوجود ہم بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں. دراصل اس کی بنیاد اس جوائنٹ فیملی کی ایک ایک عورت کے سنبھال کر رکھے پردوں نے فراہم کی ہوتی ہے. کوئی ایک عورت اپنے زباں کے تالے کھول دے تو خاندان کا شیرازہ بکھر جائے. اور مرد کی گردن کا سریا ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا ہو جائے.
تبصرہ لکھیے