ہوم << آؤ برائی کریں! طاہرہ عالم

آؤ برائی کریں! طاہرہ عالم

طاہرہ عالم دیکھا جائے تو ہمارے پاس وقت کا رونا ہمیشہ ہی رہتا ہے. اکثر ہم کسی نہ کسی کے سامنے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ یار وقت نہیں ملتا، ہمارے پاس وقت نہیں ہے رشتہ داروں سے ملنے کا، دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا، کسی کے پرسے کے لیے جانے کا یا پھر کسی کی عیا دت کرنے کا۔ بہت مشکل سے ہم اپنے عزیز وا قارب کے لیے اپنے بہت قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات ہی نکال پاتے ہیں. اس کے باوجود ہم نے فارغ اوقات میں اپنے لیے کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور اپنا رکھا ہو تا ہے، کسی کو ناول پڑھنے کا شوق تو کسی کا مشغلہ لمبی ڈرائیو ہوتا ہے، کوئی گانے سننے کو ترجیح دیتا ہے تو کسی کا شوق باغبانی ہوتا ہے، کوئی شعر و شاعری اور لکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو کسی کا سوشل میڈیا اور بلاگنگ میں وقت گزرتا ہے، خواتین کھانے پکانے میں مصروف ہوتی ہیں یا کوئی اور مصرف ڈھونڈ لیتی ہیں۔ بہت سے لوگ اسپورٹس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو کچھ ٹی وی دیکھ کر اپنا فارغ وقت گزارتے ہیں.
ان تمام مشاغل کے شوقین خواتین و حضرات کا ایک مشغلہ مشترکہ ہوتا ہے اور وہ ہے کسی ایسے دوست یا رشتہ دارکی برائی کرنا جو اس وقت وہاں موجود نہیں ہوتا. مشاہد ے میں یہ بات آئی ہے کہ زیادہ تر خواتین برائی کرنے میں ماہر ہوتی ہیں لیکن آج کل حضرات بھی کسی سے پیھچے نہیں. برائی کرنے کا یہ سلسلہ حالات اور واقعات کے مطابق تشکیل پاتا ہے. خواتین بہت ہی خوش دلی سے کسی تیسری خاتون کے کپٹرے، جوتے، جیولری یا پھر اس کی گھریلو زندگی کے بارے میں برائی کرتی نظر آتی ہیں۔ سننے والوں نے منع کیا کرنا، الٹا لقمہ دیتے رہتے ہیں، جب تک غیر موجود شخص کی برائی کا پٹورا خالی نہ کرلیں، باتیں ختم نہیں ہوتیں۔
ہمارے ایک جاننے والے صاحب کی عادت کے کیا کہنے! سمجھ نہیں آتی برائی کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کو برائی کرنے کےلیے اکسا رہے ہوتے ہیں. اگر کوئی راستے میں مل جائے تو بس پھر پورے جہاں کی خبریں بھی لیتے ہیں اور کسی کے گھر کیا چل رہا ہے، کون آتا جاتا ہے، خاندان والوں سے کسی کے تعلقات کیسے ہیں؟ سارا کچا چٹھا سامنے رکھ دیتے ہیں. بات ایسے کرتے ہیں کہ بس الامان و الحفیظ. ارے میاں کل تمھارے پڑوس سے بہت شور شرابے کی آواز آرہی تھی، خیریت تھی؟ اب بےچارا پڑوسی کیا کرے، بتا کر ہی اس کی جان چھوٹتی ہے. جی انکل ساس بہو کے جگھڑے، ارے ہاں! راشد کی اماں ہے ہی بہت لڑا کن، محلے والوں کاجیناحرام کر رکھا ہے۔ بس مل گیا انکل کو موضوع، اب ناشتے کا سامان لے جانے کے دوران ہی انھوں نے خالہ جی کے وہ بخیے ادھیڑے کہ کا نوں کو ہاتھ لگائے ہی بنی۔
یہ پسندیدہ مشغلہ ہر طبقے اور ہر پسثے کے لوگوں میں نظر آئےگا۔ آپ ڈاکٹر ہیں، استاد ہیں، اداکار ہیں، گلوکار ہیں، صنعت کار ہیں یا پھر بےکار ہیں، سب اپنے ہی کسی ساتھی کی برائیاں کرنے میں مصروف نظر آئیں گے. حد یہ ہے کہ سامنے اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ گماں بھی نہیں ہوتا کہ پیٹھ پیچھے کیسے کیسے اور ایسے ویسے ناموں سے پکارتے ہیں، قد کاٹھ کے لحاظ سے نام رکھے جاتے ہیں۔ یا قدرتی طور پر کسی میں کوئی کمی ہو تو اسے غیرموجودگی میں ایسے ابھارا جاتا ہے گویا انسان کے اپنے اختیار میں ہو ہاتھ پائوں یا شکل و صورت بنانا. کسی کو مشورہ بھی نہیں دیا جا سکتا، بعد میں کہا جاتا ہے کہ خودکو دیکھا ہے، اپنے بچے تو فارغ الحصیل ہیں دوسروں کو چلے مشور ے دینے۔ ہر بندہ خود کو ہر فن مولا سمجھتا ہے۔ اور آخری جملہ تو کمال کا ہوتا ہے. تمام برائیاں کرنے بعد ہاتھ جھاڑ تے ہوئے کہا جاتا ہے، دفع کرو جی، ہمیں کیا؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں وقت کی اتنی کمی ہے کہ ہم بعض اوقات یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ خود کے لیے بھی وقت نہیں تو پھر کسی کی برائیاں کرنے اور اپنی ہی آخرت خراب کرنے کے لیے نجانے اتنا وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں. برائی کرنے یا سننے سے پہلے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہمارے پاس اس کام کے لیے وقت نہیں ہے یا پھر ہم اس وقت کو اپنی برائیوں کو سدھارنے کے لیے کیوں استعمال نہیں کرتے. یہ مشغلہ اتنا عام ہے کہ جہاں چار لوگ بیٹھے ہوں، وہاں کسی پانچویں کے بارے میں گفتگو نہ ہو تو بات چیت میں چاشنی ہی نہیں ہوتی۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے جب اس برائی کا شکار ہوتے ہیں تو آپس کے تعلقات میں بہت گہرا اور خطرناک اثر پڑتا ہے، زیادہ تر گھروں میں نند، بھابھی، ساس بہو، دیو رانی اور جیٹھانی اس کا شکار بنتی ہیں۔ ان میں سے دو یا تین سا تھ مل کر گھنٹوں اسی ایک ٹاپک پر گزار دیتی ہیں، اس میں اتنی لذت ہو تی ہے کہ انسان مزے کی ایسی دنیا میں غوطہ زن ہوتا چلا جاتا ہے کہ جہاں سے واپس آنا تقریباََ ناممکن ہی ہوتا ہے۔ کیا ہم اس معاشرتی برائی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا ہم برائی کر نے والے کو کسی بھی طرح روک سکتے ہیں؟ کیا برائی سننے والے احتجاج کے طور پر واک آئوٹ کر سکتے ہیں؟ کیا ان باتوں پر غور کیا جا سکتا ہے؟ لیکن مسئلہ تو ہے ہی یہی کہ وقت کہاں ہے یہاں؟ وقت کا ہی تو رونا ہے! چھوڑو ان باتوں کو، اب لائٹ چلی گئی ہے، اور کراچی الیکٹرک والوں کی برائی کا وقت ہو اجاتا ہے. اللہ پوچھےگا ان ظالموں کو، بےوقت کی لوڈشیڈنگ کر دی۔
(طاہرہ عالم شعبہ تدریس سےوابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا شغف رکھتی ہیں. پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ سندھ کی جنرل سیکرٹری ہیں. گھومنے پھرنے، کتب بینی اور انٹرنیٹ کے استعمال کو بہترین مصرف سمجھتی ہیں اور زندگی میں کچھ نیا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔)

Comments

Click here to post a comment