ہوم << ذوالنورین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ - عظمی عروج عباسی

ذوالنورین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ - عظمی عروج عباسی

%d8%b9%d8%b8%d9%85%db%8c-%d8%b9%d8%b1%d9%88%d8%ac حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک چمکتا دمکتا ستارہ، ایک مہر منیر، ایک آفتابِ عالم تاب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مقدس ہستی بھی ہے۔ 18 ذی الحجہ یوم شہادت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے آپ رضی اللہ عنہ کے کچھ حالات نذر قارئین ہیں۔
آپ ؓ مکہ مکرمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے چھ برس بعد567ء میں مکہ مکرمہ کے مشہور تاجر عفان بن ابی العاص کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ ؓ کانام ونسب مندرجہ ذیل ہے:
ابو عبد اللہ عثمان غنی ذو النورین بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ طرح رشتے داری ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے۔
(۱) آپ ؓ کے والد کا شجرہ پانچویں پشت میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
(۲) حضرت عثمان ؓ کی نانی ام حکیم البیضا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی ہیں ، یوں آپ ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھانجے ہوئے۔
(۳) آپ ؓ کی والدہ ارویٰ بنت کریز کا نسب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے، یوں آپ ؓ ماں کی دادھیال کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے ہوئے۔
(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان ؓ کے عقد میں آئیں یوں آپ ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہوئے۔
(۵) حضرت رقیہ ؓ کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں آئیں۔ یوں آپ ؓ کو حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی دہری دامادی کا شرف حاصل ہوا، جو کسی اور کو نہیں ملا۔ اسی وجہ سے آپ ؓ کو ذو النورین ( دو نوروں والا ) کہا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کو عرش والے بھی ذو النورین کہتے ہیں۔ ( ابن عساکر )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے والد ایک کامیاب تاجر تھے، ان کے انتقال کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی فراست سے تجارت کو مزید ترقی دی اور اس کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا دیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کو خوب مال دیا تھا، اسی طرح اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگانے کا جذبہ بھی خوب عطا فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ کو زبان نبوت سے ”غنی“ کا خطاب ملا۔
آپ ؓ کی فیاضی و سخاوت تاریخ اسلام کا درخشاں باب ہے، بطور نمونہ چند واقعات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
(۱) ہجرت کے بعد مسلمانوں کو پینے کے پانی کی بڑی تکلیف تھی، کیونکہ شہر کے باہر میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا، جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے 20 ہزار درہم میں یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آپ کو جنت کی عظیم خوشخبری عطا ہوئی۔
(۲) مسجد نبوی کی توسیع کے لیے 25 ہزار درہم میں پلاٹ خرید کر وقف کردیا۔
(۳) قحط کے دنوں میں غزوہ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب پر 300 اونٹ بمع سازو سامان (جو لشکر کا ایک تہائی تھا) مجاہدین اسلام کو فراہم کیے۔ اس موقع پر زبان رسالتﷺ سے ارشاد ہوا ” آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا “۔
(۴) اسی غزوے میں نقد ایک ہزار دینار بھی جہادی فنڈ میں جمع کرادیے۔ اسی موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر تین باریہ دعا فرمائی۔ ”اے اللہ ! میں عثمان سے راضی ہوں، اے اللہ ! تو بھی اس سے راضی ہوجا۔ پھر صحابہ ؓ سے بھی فرمایا کہ تم سب بھی عثمان ؓ کے حق میں دعا کرو ( ازالۃ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء) ۔
(۵) آپ ؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی خدمت میں بھی وقتاً فوقتاً ہدایا بھیجتے تھے ۔
(۶) دور صدیقی ؓ میں پڑنے والے قحط کے موقع پر ایک ہزار اونٹوں پر آنے والا پورا غلہ ضرورت مندوں میں صدقہ کردیا، حالانکہ تاجر ان سے کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کے لیے تیار تھے، مگر آپ ؓ نے سب غلہ راہ الٰہی میں صدقہ کر دیا۔
(۷ عہد نبوی سے لے کر اپنے دور خلافت کے اختتام تک آپ ؓ کا یہ پسندیدہ مشغلہ رہا کہ قدیم مساجد کی تزئین و توسیع میں رقم لگاتے اور نئی عالی شان مساجد تعمیر فرماتے تھے۔
(۸) امہات المومنین کو علیحدہ علیحدہ مکانات تعمیر کرا کے دیے۔
(۹) جس دن اسلام لائے، اس دن سے لے کر شہادت والے دن تک بلا ناغہ ہر جمعہ کو ایک غلام خرید کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کرنے کا معمول رہا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ ؓ نے کل 2 ہزار 4 سو غلام آزاد فرمائے۔ اسی طرح ہر جمعہ ایک اونٹ ذبح کرا کر اس کا گوشت غریبوں میں بانٹنے کا بھی معمول تھا۔
(۱۰) شہداءکے گھرانوں کی کفالت آپ ؓ اپنا فرض منصبی سمجھ کر اپنے مال سے کیا کرتے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔ اہل بدر میں سے ہیں۔ ان دس صحابہ ؓ میں سے ہیں جنہیں دنیا میں جنت کی بشارت ملی۔ اللہ کی راہ میں دو مرتبہ ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ آپؓ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے 1400 صحابہ ؓ سے اپنی رضا مندی کا اعلا ن فرمایا ۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ 6ھ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کی نیت سے اپنے جانثار صحابہ کرام ؓ کے ساتھ عازمِ مکہ ہوئے، پھر حدیبیہ کے مقام پر کفار مکہ سے مذاکرات ہوئے، اس حوالے سے بطور قاصد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا۔ جن کے قتل کی جھوٹی افواہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے تمام صحابہ ؓ سے قصا ص عثمان ؓ پر بیعت لی کہ جب تک ایک بھی زندہ ہے، حضرت عثمان ؓ کا بدلہ ضرور لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیعت کو پسند فرمایا اور سورۃ الفتح نازل ہوئی ، جس میں فرمایا کہ” میں تمام بیعت کرنے والوں سے راضی ہوں ، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے“ ( الفتح ۰۱ تا ۸۱)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف فرمائی۔ ذخیرہ احادیث ایسی احادیث سے بھرا پڑا ہے، ایک شخص کا جنازہ صرف اس بنیاد پر نہیں پڑھایا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہے۔ متعدد احادیث میں آپ ؓ کی حیا اور سخاوت کی تعریف فرمائی۔ ایک بار فرمایا کہ عثمان ؓ دنیا و آخرت میں میرے رفیق ہیں۔ بارہا یہ ارشاد فرمایا کہ اے اللہ! میں عثمان ؓ سے راضی ہوں، آپ بھی ان سے راضی ہوجائیں۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حرم میں موجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی رحلت فرماگئیں تو ارشاد فرمایا: اگر میری چالیس صاحبزادیاں بھی ہوتیں تو سب کو عثمان ؓ کے نکاح میں دے دیتا (بروایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہ الفاظ اس بات کی واضح دلیل تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے راضی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بلا تفریق آپ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبے کے قائل تھے اور آپ ؓ کو حضرات صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے بعد سب سے افضل سمجھتے تھے۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کمیٹی نے، جن میں سب عشرہ مبشرہ میں سے تھے، اتفاق رائے سے آپ ؓ کو خلیفہ ثالث منتخب کیا۔ سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے آپ ؓ کے دستِ حق پرست پر بیعت خلافت کی، پھر مجمع عام میں آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، یوں یکم محرم 24 ھ کو آپؓ اتفاق رائے سے خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے۔
آپ ؓ کا سب سے بڑا کارنامہ، جو بعد میں آپ ؓ کی شہادت کا بنیاد ی محرک بھی ثابت ہوا، تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کی ایک قرات پر جمع کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آپ ؓ نے حضرت عمر ؓ کے دور میں شروع ہونے والی فتوحات کی تکمیل کی اور 24 لاکھ مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ بیت المال کی تنظیم نو، حجاز میں نہروں کا جال بچھانا، مدینہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ڈیم تعمیر کرنا، نئی سڑکیں اور پل تعمیر کرانا، کنویں کھدوانا، سرکاری عمارات و دفاتر تعمیر کرنا، نئے سکے جاری کرنا اور وقف عام کا قیام آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے نمایاں کارنامے ہیں۔ آپ ؓ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپؓ نے دستور اسلامی کی حفاظت آخر دم تک کرکے مفسدوں کے ارادوں کو ناکام بنایا۔
یہودی النسل عبد اللہ بن سبا نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے مفسدین کو مجتمع کیا۔ انہوں نے آپ ؓ پر بےسرو پا الزامات عائد کیے جن کا آپؓ نے ہر سطح پر جواب دیا۔ ایام حج میں، جبکہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے، ان سازشیوں نے موقع غنیمت جانا اور آپ ؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اس 40 روزہ محاصرے میں آپ ؓ کے اہل خانہ تک کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ پہنچنے دی۔ ساتھیوں نے مقابلہ کرنے کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ میں نبی کے شہر میں خون نہیں بہانا چاہتا۔ آپ ؓ نے تمام مظالم برداشت کیے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب خلعتِ خلافت کو اتارنے سے انکار کردیا۔
آپؓ جمعہ کے دن بحالتِ روزہ بوقت ِتلاوت قرآن 18 ذی الحجہ 35 ھ کو انتہائی بےدردی سے 82 سال کی عمر میں شہید کردیے گئے۔