ہوم << لبرلز کی منطق - مدثر ریاض اعوان

لبرلز کی منطق - مدثر ریاض اعوان

مدثر ریاض اعوان اس دنیا میں ہر انسان الگ جسم ،الگ دماغ اور الگ سوچ وفکر کے زاویے لے کر پیدا ہوا ہے۔ کسی ایک ہی چیز کے بارے میں ہر شخص ایک خاص نقطہ نظر رکھتا ہے۔ انسانوں کے درمیان اختلاف رائے ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ سے رہے گا۔ اختلاف رائے کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم ہر ایک انسان سے عقل و شعور کو نکال دیں ورنہ عقل کی موجودگی میں اختلاف رائے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
دنیا میں تمام علوم کو سیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کے لیے مختلف طریقے رائج ہیں۔ کسی بھی علم کو سیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کے بعد کو ئی بھی شخص اس علم کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ مگر شرط اول پختگی علم ہے۔
مسئلے کا آغاز تب ہوتا ہے جب کوئی بھی شخص بغیر تحقیق و فکر اور دلیل کے اپنی رائے کو حتمی سمجھے۔ خصوصا یہ بیماری الیکٹرانک میڈیا میں وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ آئے روز روشن خیال لبرلز مذہب کے ہر پہلو پر بلاتحقیق تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اینکر صاحب موضوع کا انتخاب کرتے ہیں ”خدا اور انسان کا باہمی ربط“ اور اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے ان روشن خیال لبرلز کو مدعو کیا جاتا ہے جو الہیات، فلسفے اور تاریخ سے مکمل ناواقفیت رکھتے ہیں
سیدنا شیخ علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ نے فرمایا ”ہر علم سے اتنا سیکھنا فرض ہے جو تجھے خدا کی تلاش کے لیے کافی ہو“۔ مذہب کی مکمل سمجھ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس دور میں مروجہ تمام علوم کی کم از کم بنیادی اساس سےواقفیت ہو۔ دین اسلام کو مکمل سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن، حدیث، فقہ، اسماءالرجال، تاریخ، فلسفہ اور سائنسز کا مطالعہ کیا جائے۔
اب اگر لبرلز سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ مذہب پر تنقید کر رہے ہیں تو یقینا آپ نے قرآن کو پڑھا ہوگا اور درایت و روایت کے تمام اصولوں سے بھی واقف ہوں گے؟ اس پر جواب آتا ہے ”ہم مولوی تو نہیں ہیں“۔ پھر ان سے دوسرا سوال کیا جائے کہ آپ یقینا فلسفے اور الہیات پر مکمل گرفت رکھتے ہوں گے؟ جواب پھر بھی نفی میں آتا ہے۔ یہ تو بلکل ایسے ہے کہ ایک ماہر ریاضیات نفسیات کے اصولوں کو غلط قرار دے یا ایم اے اردو کرنے والا شخص عربی کے صرف و نحو کے قواعد پر تنقید کرے یا آرٹس میں میڑک کرنے والا آئن سٹائن کی تھیوری کو بلا دلیل رد کر دے۔
لبرلز کی اسی منطق کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو پیٹ کے درد کے علاج لیے الیکٹریکل انجینئر کے پاس جانا چاہیے اور عمارت کے ڈیزائن کے لیے ڈاکٹر صاحب سے رجوع کرنا چاہیے. فیا للعجب