الحمد للہ ایک مسلمان یہ جانتا ہے کہ اسے کسی بھی دن اس کا رب واپس اپنے پاس بلا لے گا، اسی لیے وہ اپنے مقدور بھر اس کی تیاری بھی کرتا ہے ،جبکہ ایک تیاری وہ ہوتی ہے جو انسان کے مرنے سے لے کر قبر میں جانے تک اس کے لواحقین اس کے لیے کرتے ہیں.
آپ اگر کینیڈا میں رہتے ہیں یا آپ کا قریب یا دور کا کوئی عزیز، تو براہ مہربانی اپنے لواحقین کو اس تیاری کے لیے، کچھ اہم ترین نکات کی تلقین ضرور کر دیجیے.
انسان کی موت گھر میں ہو یا ہسپتال میں، ہرحال میں، غسل اور قبر سے پہلے میت کو ہسپتال کا visit ضرور کرنا ہوتا ہے. اور میت مسلم ہو یا غیر مسلم، مرد ہو یا خاتون، کینیڈا کے ہسپتالوں میں ایک dead body کے ساتھ ”حسن سلوک“ وہی رہتا ہے جو کسی بھی چرچ سے رخصت ہونے والے کا ہوتا ہے. میت کو بالکل برہنہ کر کے، ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، ہاتھ کراس کی شکل میں کر دیے جاتے ہیں اور کیونکہ یہ لوگ اپنی میت کو سجا کر رخصت کرتے ہیں لہٰذا حسن میں کوئی فرق نہ آجائے سوچ کر، جو لوگ ڈنچرز استعمال کر رہے ہوتے ہیں، فورا ان کے منہ میں dentures لگا دیتے ہیں، (کیونکہ منہ کھلا رہ جاتا ہے تو smile اچھی دکھتی ہے)، اور لواحقین کو دیتے وقت کبھی کبھی ان کی مدد کی خاطر کہ بیگ سے dead body نکالنے میں دقت نہ ہو، وہ رہی سہی پلاسٹک کی ستر بھی بےچاری میت سے ہٹا دی جاتی ہے.
خدارا اپنے گھر والوں اور دوستوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے میں بالکل دیر نہ کریں. کہ مسلم لواحقین کا فرض بنتا ہے کہ وہ ڈاکٹرز سے درخواست کریں بلکہ مصر ہو جائیں کہ یہ ایک مسلمان کی میت ہے. پہلی بات یہ کہ اس کے کپڑے تلف نہ کیے جائیں، دوسری اس کے ہاتھ سیدھے رکھیں اور پاؤں کے انگوٹھے آپس میں tie کر دیے جائیں. dentures کی اب انہیں کوئی ضرورت نہیں، لیکن منہ بند کیا جا سکے تو فوری بند کیجیے.
ایک اور المیہ اس سے بھی بھیانک ہے کہ جب ہمارے بہت سے بھائی بہن اس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ جہاں وفات ہو، وہیں تدفین بھی ہو جائے، اور وہ اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر کیونکہ کینیڈا میں تدفین کا عمل کم از کم پانچ ہزار ڈالرز میں انجام پا تا ہے، اور P.I.A میت کو مفت پاکستان لے جانے کی سہولت دیتی ہے، سو وہ فیملی کی بچت کی خاطر پاکستان بھیجنے کی وصیت کر جاتے ہیں، لیکن ! ایسی میت کے ساتھ جو کچھ ”لازمی“ ہوتا ہے، یہ بھی جان لیں کہ کیونکہ سفر لمبا ہوتا ہے اور میت کے خراب ہونے کا خدشہ، تو اس باڈی کے پیٹ میں سے تمام تر آنتیں/آرگنز نکال کر تلف کر دیے جاتے ہیں، کیمیکل لگایا جاتا ہے اور میت پر لگے کٹ کو پرانے پھٹے ہوئے لحاف کی مانند بڑے بڑے شلنگے (ٹانکے) لگا کر بند کر دیا جاتا ہے، اس لازمی آپریشن کی فیس کم از کم دو ہزار ڈالرز اور تابوت جو کہ ایک اور لازمی جز ہے، اس کے کم از کم ہزار ڈالرز کل ملا کر تین ہزار ڈالرز کی رقم تو بنتی ہی ہے. ماضی قریب میں ایسے واقعات بھی سننے میں آئے کہ بجٹ، (بلکہ ایمان) کی کمی کے باعث کسی بیٹے نے اپنے والد کی میت کی تدفین پر رقم خرچ کرنے کے بجائے ان کی چتا کو آگ لگا کر ”سستے“ میں جان چھڑا لی.
الحمدللہ ثم الحمد للہ مسلم کمیونٹی میں اس مد میں، ضرورت مندوں کے لیے فنڈز بھی قائم ہیں. اور لوگ اس موقع پر انتہائی سخاوت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح شادی کے موقع پر لفافے دیے جاتے ہیں، اسی طرح نماز جنازہ میں شرکاء اپنے ہوں یا غیر اور بالکل انجان، وہ حسب استطاعت لفافوں میں رقم رکھ کر لواحقین کی امداد ضرور کرتے ہیں. اس لیے نہ تو کسی کو ایذا پہنچا کر پاکستان بھیجنے کی ضرورت ہے، اور نہ ہی کسی کو آگ کے حوالے کرنے کی.
لیکن ایک آگ دل میں لگی ہی رہے تو بہتر ہے کہ کل کو جب ہمارے ہاتھ پاؤں زبان کچھ بھی حرکت نہ کر پائے گی، ہم سراسر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے، تب بھی ہوگا تو وہی، جو اللہ چاہے گا. عین وقت پر اللہ تعالیٰ ہی تو انہیں یہ سب یاد دلانے اور سرے سے بھلا دینے پر قادر ہے، تو کیوں نہ اس قادر مطلق سے بنا کر رکھی جائے؟ قبل اس کے کہ کوئی بے رحم موت کے بعد سینے کو چاک کر کے اعضاء کو تلف کرے، کیوں نہ زندگی میں ہی اس سینے میں سے، لالچ، حرص، ناشکری، تکبر، طمع، حسد، بغض، عداوت اور کینے کو تلف کر دیا جائے. کیوں نہ ایسے کانوں سے، جو اپنے رب کے احکام کو تو سنا ان سنا کر دیتے ہیں، لیکن اپنے دشمن شیطان کے وسوسوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، نجات حاصل کر لی جائے؟
اس وقت جبکہ ہمارے ہاتھ قلم کی ایک جنبش سے کسی کی جائیداد پر قابض ہو جانے پر قادر ہیں، کسی پر انگلی اٹھانے، کسی کا گریبان چاک کر دینے، کسی کو ایذا دینے، حق روک لینے پر مکمل اختیار رکھتے ہیں. یہ زبان، جو چغلی، غیبت اور بہتان سے کسی کی عصمت دری پر، پردہ دری پر، کسی کے سینے میں نیزے کی طرح گھپ جانے پر بلا کا عبور رکھتی ہے. کیوں نہ ہم مرنے سے پہلے ہی ان تمام فتنوں کو خود مار ڈالیں.
کاش! نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے جب خالی ہاتھ اٹھیں تو دوسرے کی حق تلفی سے پاک ہوں؟ یااللہ رب العزت! ہماری زبان پر تیرا ذکر جاری ہے. یہ شکوے، طعنے، غیبت، جھوٹ اور فحش سے عاری ہو. یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک (آمین )
حکومتی سطح پر کینیڈین حکومت کو مسلم میت کے ساتھ مسلم تدفین کا طریقہ اپنانے کی کوشش ھونی چاھیئے۔ عرب ممالک میں ملکی یا غیر ملکی شخص کی وفات پر تمام اخراجات حکومت برداشت کرتی ھے جہاں زمین کی کمی ھونے کا مسئلہ بھی ھے جبکہ کینیڈا میں زمین کی کمی نہیں لھڈا کینیڈین حکومت سے اپیل کی جانی چاھیئے کہ کسی بھی مذھب پر اٹھنے الے اخراجات حکومت خود برداشت کرے۔ اور مذھب کو اپنی تدفینی رسومات کی ادائیگی میں مکمل آزادی دیطجانی چاھیئے۔