ہوم << تیری مسیحائی کا سوال ہے - رضوان اسد خان

تیری مسیحائی کا سوال ہے - رضوان اسد خان

رضوان اسد خان رالف ڈوبیلی نے اپنی کتاب میں سوچ کے مختلف سقم واضح کیے ہیں جو مغربی عوام کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔ اگر کوئی ہند و پاک معاشرے کی ذہنیت پر کتاب لکھے تو شاید کئی جلدیں بن جائیں۔
آج ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہیں:
ہماری عوام کا خیال ہے کہ ڈاکٹرز مریضوں کو لوٹتے ہیں۔ پرائیویٹ کلینکس پر بڑی بڑی فیسیں بٹورتے ہیں۔ آپریشن کے بے تحاشا چارجز لیتے ہیں۔ ڈاکٹری کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ قصائی ہیں، ڈاکو ہیں وغیرہ وغیرہ۔
پہلے تو میں کھلے دل سے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ ہر شعبے کی طرح کالی بھیڑیں ہمارے پروفیشن میں بھی ہیں۔
-- سرکاری ہسپتال میں مریض کو صحیح طرح نہ دیکھنا اور اپنے کلینک ریفر کرنا/کروانا،
-- فارما کمپنیوں سے سازباز کر کے بےجا اور بلا ضرورت ادویہ لکھنا،
-- لیبارٹریز سے سازباز کر کے غیر ضروری ٹیسٹ کروانا،
-- ایمرجنسی کیس میں مریض کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ناجائز پیسے کمانا،
-- غیر ضروری طور پر، محض دولت کے لالچ میں، مریض کو مہنگے ہسپتالوں میں داخل رکھنا۔
یہ سب بلا شبہ ”جرائم“ کے زمرے میں آتے ہیں اور کوئی بھی ذی شعور، خواہ وہ ڈاکٹڑ ہی کیوں نہ ہو ان سب قبیح امور کی حمایت نہیں کر سکتا۔
اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب:
یہ کہنا کہ ڈاکٹر پرائیویٹ کلینکس کھول کے بیٹھے ہیں اور وہاں ”انّھے وا“ (بے تحاشا) فیس لیتے ہیں، دراصل ”سوچ کا سقم“ ہے۔
بھائی آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ایک ”پرائیویٹ کلینک“ ہے جو کہ ڈاکٹر کی ذاتی ملکیت ہے۔ یہاں وہ چاہے تو مفت دیکھے، چاہے تو 5 ہزار فیس لے۔ چاہے تو ایمرجنسی کیس دیکھے چاہے تو نہ دیکھے۔ چاہے تو ایک گھنٹہ بیٹھے، چاہے تو رات دو بجے تک بیٹھا رہے۔ آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟
آپ کو فیس زیادہ لگتی ہے؟ آپ وہاں نہ جائیں۔ کس نے مجبور کیا ہے؟ سرکاری ہسپتال میں چیک کروا لیں۔ لیکن اگر آپ وہاں کے مصائب برداشت نہیں کر سکتے تو سہولت کی قیمت ادا کریں۔ یہ تو دکان والا معاملہ ہے۔ چیز مہنگی لگتی ہے تو نہ خریدیں، کسی سستی دکان یا یوٹیلٹی سٹور سے خرید لیں۔ لیکن کبھی مہنگے برانڈز کے ریٹ ڈالر کی قیمت کے ساتھ ہی تبدیل ہونے پر کسی نے واویلا نہیں مچایا، ریستورانوں میں حالیہ ٹیکس سے نرخوں میں بےتحاشا اضافے پر کوئی نہیں بولا۔ لان والے سیل میں قیمت دگنی کر کے آدھی لگا دیں تو یہ لوگ ایسے اس پر ٹوٹتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لیکن گالیاں اگر کسی کو پڑتی ہیں، تو وہ ڈاکٹر ہی ہے۔
لیکن خدارا اب سرکاری ہسپتالوں کی دگرگوں حالت کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر پہ نہ ڈال دیجیے گا۔ اس کے ذمہ دار وہ ہیں جن کو آپ ہر سال ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور حالت نہ سدھرنے کے باوجود بار بار منتخب کرتے ہیں۔ ووٹ دیتے وقت آپ کی ترجیح اور معیار اگر تھانے کچہری کے چکروں میں سہولت ہوتی ہے، تو بعد میں صحت کی سہولتوں کے فقدان کا رونا اول تو روئیں ہی ناں، اور اگر رونا ہی ہے تو ڈاکٹر بےچارے کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں جو خود اس نظام میں پستا چلا جا رہا ہے۔ جو خود بھی اگر سرکاری ملازم نہیں، تو صحت کی کوئی سہولت اس کے اور اس کے کنبے کے لیے فری نہیں۔
کہتے ہیں ڈاکٹری کا پیشہ کیونکہ انسانی جان سے متعلق ہے اس لیے یہ زیادہ حساس اور ذمہ دارانہ رویے کا متقاضی ہے۔ تسلیم، لیکن ٹھہریے۔
-- کیا گھر کے قریب سے ہائی وولٹیج تاروں کا ننگی حالت میں گزرنا جان کے لیے خطرناک نہیں؟
-- کیا مین ہول کا ڈھکن غائب ہونا خطرناک نہیں؟
-- کیا گلی گلی کے کونے کونے پر کوڑے کے ڈھیر بیماریاں نہیں پھیلاتے؟
-- کیا ناقص پل بنانے والے پھولوں کے ہار کے مستحق ہیں یا جوتوں کے ہار کے؟
لیکن ان سب”غافل“ سرکاری اداروں میں کام نہ ہونے پر رشوت کو اب ”جائز“ سمجھ لیا گیا ہے۔
لیکن سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر سے مریضوں کے شدید رش، غیر انسانی ڈیوٹی آورز، خود ڈاکٹرز کے لیے کھانے پینے کی سہولیات کے فقدان کے باعث کوئی معمولی کوتاہی بھی ہو جائے تو میڈیا پر بریکنگ نیوز چل پڑتی ہے۔
تو جناب ہر ملک میں پرائیویٹ علاج ایک قسم کی ”عیاشی“ (لگژری) ہی ہوتا ہے۔ مغرب میں پرائیویٹ ڈاکٹرز کی فیس سن کر یہاں والوں کی آنکھیں ڈیلوں سے باہر آ جائیں، پر وہاں کبھی ان کی عوام نے اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ انہیں بنیادی اور ایمرجنسی سہولیات اعلیٰ معیار کے ساتھ سرکاری سیٹ اپ میں مل جاتی ہیں۔ آپ بھی صحت کی بہترین سہولیات چاہتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ پر یہ حق غلط جگہ نہ جتائیں۔ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ اپنی غلطی دوسروں کے سر منڈھنا بھی سوچ کا ایک بہت بڑا سقم ہے۔
اور چلتے چلتے ایک سقم اور بتاتا چلوں:
ایک پیشے سے متعلق لوگوں کو اجتماعی طور پر برا بھلا کہنا اور پھر انہی سے علاج کروانا۔

Comments

Click here to post a comment