ہوم << قربانی پر اعتراضات کا جائزہ - سید وجاہت

قربانی پر اعتراضات کا جائزہ - سید وجاہت

سید وجاہت اسپین میں ہر سال ماہ اگست کے آخری بدھ کو ایک میلہ منعقد ہوتا ہے، جسے مقامی زبان میں (La Tomatina) کہا جاتا ہے، اس میلے میں موجود شرکاء ایک دوسرے پر ٹماٹر پھینکتے ہیں، ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں افراد اس میلے میں شرکت کرتے ہیں اور بذریعہ قرعہ اندازی منتخب افراد ہی اس میلے میں شریک ہوتے ہیں، اس میلے کے آغاز 1945ء میں ہوا اور اس وقت سے یہ میلہ ہر سال لگایا جاتا ہے. کہا جاتا ہے کہ 1945ء میں کچھ دوستوں نے اس کی شروعات کی تھی جس کے بعد سے یہ ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہونے لگا، اس میلے میں ایک اندازے کے مطابق سو میٹرک ٹن ( ایک ٹن ایک ہزار کلو گرام کے برابر ) سے زیادہ ٹماٹر اس میلے میں استعمال ہوتے ہیں، اس گیم کا یہ اصول بھی ہے کہ ٹماٹر مارنے سے بہلے اس کو کسی قدر کچلا جاتا ہے تاکہ کسی کو چوٹ نہ لگے۔
کس قدر افسوس اور جہالت کا مقام ہے کہ مہذب سمجھی جانے والی یہ تعلیم یافتہ قوم ہر سال اتنے ٹن ٹماٹر کچل کر، انہیں ضائع کرکے خوشی مناتی ہے اور تو اور کوئی بھی لبرل تعلیم یافتہ دانشور آواز بلند نہیں کرتا کہ اللہ کے بندو یہ رزق کا ضیاع ہے، یہ بربادی کیوں کی جارہی ہے، کیا یہ ٹماٹر ان افریقہ کے ملکوں میں جہاں غریب فاقوں سے مر رہے ہیں، وہاں نہیں بھیجے جاسکتے؟ اور اس قدر جاہلانہ رواج جو اسپین میں نصف صدی سے زائد عرصے سے جاری ہے اور اب اسپین کے علاوہ بھی کئی ممالک میں یہ رسم چل پڑی ہے، جس کے پیچھلے نہ کوئی لاجک ہے اور نہ ہی کوئی فلسفہ، لیکن حیرت ہے کہ اس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا، کوئی نہیں کہتا کہ ان ٹماٹروں کو ضائع مت کرو بلکہ غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کردو۔
لیکن جب مسلمان قربانی کے فریضے کو انجام دیتے ہیں تو یہی ہمارا روشن خیال سمجھا جانے اور لبرلزم کا پرچار کرنے والا طبقہ شور مچانا شروع کردیتا ہے کہ بھائی ان جانوروں کو قربان کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرو، اس میں کوئی شک نہیں غریبوں کی مدد و نصرت اسلامی فریضہ ہے، قرآن و حدیث میں غرباء کی اعانت کے اس قدر فضائل منقول ہیں کہ جس کا انکار کسی بھی عقل و شعور رکھنے والے کے لہے ممکن ہی نہیں، مگر دیکھا جائے تو یہ قربانی کی عبادت بھی دراصل غریبوں کی اعانت کی ایک شکل ہے. شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں ، جس میں سے ایک حصہ غریبوں محتاجوں کا ہو اور ایک حصہ اپنے رشتے دار، پڑوسیوں کا ہو، قربانی سے حاصل شدہ کھالوں سے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ غریب، غرباء کو دی جائیں. اس قربانی میں نہ تو کسی چیز کو ضائع کیا جا رہا ہے اور نہ کوئی نامقعول حرکت کی جا رہی ہے. اللہ کی رضا کی خاطر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خود کھانا، فقراء و مساکین کو کھلانا، رشتے داروں میں تقسیم کرنا، قربانی سے حاصل شدہ کھالوں سے غریب اور محتاج لوگوں کی اعانت کرنا اور فلاحی کاموں میں لگانا، یہ سب اس موقع پر ہوتا ہے. پھر قربانی کے ایام میں ہزاروں لوگوں کو کاروبار کے ذرائع بھی مہیا ہوجاتے ہیں. قربانی کے ہی ایام ہوتے ہیں کہ جب متوسط اور نادار طبقہ اپنی مرغوب غذا گوشت سے کچھ دنوں کے لیے لطف اندوز ہوتا ہے، وہ افراد جو ہفتے مہینے گوشت نہیں کھا پاتے وہ بھی بار بی کیو کا مزا چکھ لیتے ہیں.
یہ عبادت صرف آخرت کے لیے نہیں بلکہ اس کے بےشمار دنیاوی برکات بھی ہیں اور یہ شعائر اسلام بھی ہے ، آج کل شعائر اسلام کا مذاق بنانا ، اس پر بےجا اعتراضات کرنا ایک فیشن بنتا جارہا ہے، ایسا فیشن کے جس کے بغیر آپ دانشور کہلائے جانے کے مستحق نہیں سمجھے جاتے. تعجب ہے کہ اسلام کی معقول چیزوں اور عبادتوں پر تو لبرل دانشوروں کو اعتراضات ہوتے ہیں لیکن مغرب اور اہل مغرب کی حماقتوں پر یہ چپ رہتے ہیں۔
اہل اسلام یاد رکھیں کہ اس عظیم الشان عبادت کو بطور عبادت کے کیا جانا چاہیے، جانوروں کی نمود و نمائش کرنا اور غریبوں، ناداروں کو اس موقع پر بھول جانا کسی طرح سے بھی مناسب نہیں. قربانی جیسی عظیم عبادت ہمیں حضرت ابراہیم کی قربانیوں اور امتحانات میں سرخرو ہونے کے بعد ملی. اس موقع پر اپنے نفس کی قربانی کرنا اور خواہشات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنا ہی اصل قربانی ہے۔

Comments

Click here to post a comment