ہوم << کیا تمام انسان خسارے میں ہیں؟... فرخ سعید

کیا تمام انسان خسارے میں ہیں؟... فرخ سعید

بے شک انسان خسارے میں ہے. سورہ عصر
اللہ رب العزت نے جب تخلیق آدم کا تذکرہ فرشتوں سے کیا تو انہوں نے سوال کیا کہ اے ہمارے رب کیا تو ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو تیری نافرمانی اور زمین میں فساد کرے گی؟
تو خالق کائنات نے جواب دے کہ اے فرشتوں جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے!
تخلیق آدم ہوئی اور اسکی افزائش کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور بالاخر پیغمبر آخر زماں جناب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ سلام پر قرآن مجید کا نزول شروع فرمایا اور زمانے کی قسم کھا کر سورہ عصر میں اعلان فرمادیا کہ تمام انسان خسارے میں ہیں۔ یہ اعلان سنتے ہی انسانوں کہ دماغ میں سوال پیدا ہوا کہ اے ہمارے پالنے والے! تمام انسانوں میں تو سیدنا آدم علیہ سلام سے نبی آخرزماں سیدنا محمد رسول اللہ بھی آتے ہیں۔ ان میں تیرے عبادت گزار ، صالحین، شہداء اور تجھ سے ڈرنے والے بھی آتے ہیں، کیا سب خسارے میں ہیں؟
تو اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کی چار صفات بیان فرمائیں اور قانون بنا دیا۔
چناچہ اعلان ہوا کہ سب انسان خسارے مے ہیں سوائے ان لوگوں کہ جو ایمان لائے۔ گویا کہ اس اعلان نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ایک وہ جو اپنے خالق و مالک پر ایمان لائے اور اسکی توحید کا اقرار کیا، اور اسکے رسولوں اور انکی تعلیمات، فرشتوں، کتابوں، یوم جزا و سزا اور مرنے کے بعد دوبارا ذندہ ہونے پر ایمان لائے اور دوسرا وہ جنہوں نے سب کا انکار کیا اور اللہ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کیا اور نا فرمان کہلائے۔
جو ایمان لائے انکے ذہن میں سوال آیا کہ کیا اب ہم کامیاب ہوگئے؟ تو خالق کائنات نے ارشاد فرمایا: تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔
یہاں دوسرا قانون بتلایا گیا کہ مجھ پر ایمان لاکر میرے احکامات جو میرے رسولوں کے ذریعہ تم تک پہنچے ہیں ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ جس چیز کا حکم دیں اس پر عمل کرنا اور جس سے روک دیں اسے چھوڑ دینا لازم ہے۔ دین کے معاملے میں اگر و مگر، بدعات و رسومات کو چھوڑنا اوراللہ اور اسکے رسول کی اطاعت ضروری ہے۔
سوال کا دائرہ وسیع ہوا کہ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کرتے رہے کیا وہ کامیاب ہوگئے، تو ارشاد ربانی نے تیسرا اور چوتھا قانون بیان کیا کہ تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔
گویا ایمان لاکر نیک اعمال کرنے والوں کو ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کی، کہ جو ایمان تمہارے دل میں اترا ہے اور جن اعمال سے تم نے اللہ کی رضا پائی ہے وہ اپنے تک محدود نہیں رکھنا، یہ پیغام و تبلیغ ان لوگوں تک پہنچانی ہے جو ایمان لائے پر اعمال صالح نہ کر پائے یا سرے سے ایمان کی نعمت ہی سے محروم رہے ان کو ایمان اور اعمال دونوں کی طرف لانا امت کے ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے جو پہلے دونوں قانون اپنا چکا ہے۔
یہاں اللہ رب العزت نے ایمان لاکر، اس پر عمل کرکے، حق بات کی تلقین کرنے والوں کو کامیابی کا چوتھا قانون سمجھا کر صبر جیسی عظیم صفت کو اپنانے کی تلقین کی، کہ جب تم ایمان لا کراعمال کرنے لگ جاؤ گے اور پھر اللہ اور اسکے رسول کا پیغام دنیا بھر میں پھیلاؤ گے توعالم کفر اور طاغوتی قووتیں تمہاری دشمن ہو جائینگی، تم شدت پسند بھی کہلاؤ گے اور غیر تہذیب یافتہ بھی۔ تم پر زمین تنگ کردی جائے گی۔
جب تم اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کو مضبوطی سے تھامو گے تو تمھارے اپنے بھی مولوی، صوفی اور طرح طرح کے القابات دے کر تمھارا مزاق اڑائیں گے اور تمہیں آج کی چالاک دنیا کا جاہل انسان قرار دینگے۔
تو گویا پچھلے تین قوانین پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری ہوگا کہ تم صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا اور بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
بے شک جو ان چار قوانین کو اپنی زندگی و وجود پر لاگو کرگیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اللہ پاک ہمیں بھی ان پر عمل کرنے اور اپنے فضل سے کامیاب انسانوں کی فہرست میں شامل فرمائے۔ آمین