ہوم << اورنگزیب عالمگیر، ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان - ریحان خان

اورنگزیب عالمگیر، ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان - ریحان خان

ریحان خان قصرِ یاسمین دریچے میں کھڑے ہم حزنیہ نگاہوں سے دیر تک تاج محل کو دیکھتے رہے. یہ ایک شہنشاہ کے جائےزوال سے اس کے مقام عروج کا مشاہدہ تھا.
اسی قصر میں نظربندی کے دوران ایک بار اورنگزیب عالمگیر اپنے بیٹے کو شاہجہاں سے ملوانے کے لیے لایا. اورنگزیب کا بیٹا حافظِ قرآن تھا. شاہجہاں نے افسردہ لہجے میں کہا کہ یہ تو تمھارا تاج ہے. یہ بات سن کر اورنگ زیب نے نہایت ہی قلیل عرصے میں حفظ قرآن مکمل کیا اور روزِ حشر کے لیے شاہجہاں کا تاج بن گیا- ایک کاتبِ قرآن کی حیثیت سے اورنگ زیب کے پاس قرآن بکھرے ہوئے موتیوں کی شکل میں محفوظ تھا. بس ان موتیوں کو ترتیب سے پرونے کی دیر تھی. اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہجہاں بھی آخری لمحات میں درویش صفت بن گیا تھا. اور مشغول رہنے کے لیے اس نے خواہش کی تھی کہ کچھ بچوں کو اس کے پاس روزانہ بھیج دیا جائے جنھیں وہ تعلیم دے سکے. شاہجہاں کی زندگی کا یہ رخ بہت کم مطالعہ میں آتا ہے، اکثریت کے لیے وہ تاج محل بنا کر کسی کو محبت کی نشانی دینے والا یا کسی کی محبت کا مذاق اڑانے والا ایک شہنشاہ ہے.
%d8%af%d8%a7%d8%b1%d8%a7-%d8%a7%d8%b4%da%a9%d9%88%db%81 دارا شکوہ شاہجہاں کا ممکنہ جانشین اور اورنگزیب کا سگا بھائی تھا. وہ عورت اور شراب کا دلدادہ اور انتہائی درجے کا سیکیولر تھا. مشترکات بین المذاہب کے ضمن میں داراشکوہ کی سرگرمیاں قابل ذکر ہیں. اس نے سنسکرت زبان کے ویدوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کروایا. اس کے ممکنہ دورِ حکومت میں اکبر کے تصورِ دینِ الٰہی کو تقویت ملنی یقینی تھی.
دوسری جانب تاج محل کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی. قصر یاسمین سے تاج محل کو دیکھتے ہوئے شاہجہاں کو جمنا کے پانی میں اس کا عکس نظر آتا تھا. اس عکس کو دیکھتے ہوئے شاہجہاں کو یہ خیال آیا کہ اگر جمنا کے شمالی کنارے پر بھی کوئی عمارت تعمیر کر دی جائے تو جمنا کے پانی میں دونوں عمارتوں کا عکس ایک خوبصورت سماں پیش کرے گا، چنانچہ اس نے جمنا کی شمالی سرے پر تاج محل کے مدّمقابل ایک اور تاج محل کی تعمیر کا ارادہ کیا جو تاج محل کے طرز پر بالکل من و عن تعمیر کیا جانا تھا، فرق صرف اتنا کہ اس کی تعمیر میں سفید کے بجائے سیاہ سنگِ مرمر استعمال کیا جاتا. وہ سنگِ مرمر جس سے تختِ جہانگیری بنایا گیا تھا. سیاہ تاج محل کی تعمیر کا آغاز بھی ہوگیا اور اس کی بنیادیں بھی دوسری جانب جا چکیں تھیں کہ شاہجہاں کو بیماری نے آ لیا، داراشکوہ نے آگے بڑھ کر پر قبضہ کر لیا، اورنگزیب نے اس قبضے کو تسلیم نہ کیا، دونوں کے درمیان دو جنگیں ہوئیں جس میں دارا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایران میں پناہ کی غرض سے قندھار کا قصد کیا مگر راستے میں گرفتار ہو کر دہلی لایا گیا جہاں‌ بغاوت اور الحاد و زندقہ کے جرم میں اس کی گردن مار دی گئی. اس کے بعد اورنگزیب نے شاہجہاں کو نظربند کردیا. اس تاج محل کی بنیادیں اب بھی ہیں لیکن اب اسے ایک گارڈن کی شکل دے دی گئی ہے. بالی وڈ فلموں میں تاج محل کو فلمبند کرنے کے لیے اسی گارڈن میں سیٹ لگایا جاتا ہے. تاج میں بے پناہ رش کی وجہ سے فلموں کی شوٹنگ کی پرمیشن نہیں دی جاتی.
%d9%81%d8%aa%d8%a7%d9%88%db%8c اورنگ زیب کے اس اقدام کی یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ اگر دارا شکوہ بادشاہ بنتا تو دینِ الہی نے دوبارہ زندہ ہوجانا تھا اور سیاہ تاج محل کی تعمیر میں ایک بڑی رقم سلطنت کی تعمیر کے بجائے عمارت کی تعمیر کی نذر ہوجاتی. یہ تاویل قابل قبول بھی ہے. اگر تاج کی تعمیر کے بجائے سلطنت کی تعمیر کے اقدام کیے جاتے تو برطانوی سامراج کو ٹالا جاسکتا تھا. اگر ٹالا نہیں جاسکتا تھا تو اسے موخّر ضرور کیا جاسکتا تھا لیکن قانونِ قدرت میں اقوام کے عروج و زوال کی راہیں متعین ہیں. بہانے سیکڑوں بن جاتے ہیں. اورنگزیب کے اس جارحانہ اقدام نے جہاں ملک کا ایک وسیع سرمایہ اسراف کی نذر ہونے سے محفوظ کرلیا وہیں دین الٰہی کے جاگتے اثرات کو دوبارہ بیدار ہونے سے پہلے دبا دیا گیا اور اس کے سدّباب کے لیے اورنگزیب نے علماء کو فتاوی عالمگیری کی ترتیب پر مامور کردیا-
.......ع
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللّہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
%d8%a7%d9%88%d8%b1%d9%86%da%af%d8%b2%db%8c%d8%a8 جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اورنگزیب نے اقتدار کے حصول کے لیے دارا شکوہ کا قتل کیا اور شاہجہاں کو نظر بند کیا. اس کے بعد سے اسے ایک رخ ملا جس پر چلتے ہوئے اس نے بادشاہی میں فقیری اختیار کی، ورنہ جس دھوم دھام سے اورنگزیب نے تاجپوشی کا جشن منایا، وہ اس کی درویش صفت شخصیت کے شایان شان نہیں ہے. اس کے بعد اپنی اصلاحات کے طور پر اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسموں پر امتناع عائد کیا، نشاط و سرور کی محفلیں جرم قرار دی گئیں، خوبصورت مقابر کی تعمیر پر پابندی عائد کی، قوّالوں، خوشامدیوں، اور شعراء کو دربار سے دور کیا، شراب، افیون اور بھنگ پر پابندی عائد کی، بادشاہ کے سامنے دوزانو ہونے یا سر جھکانے سے منع کیا، سکّوں پر کلمہ طیبہ لکھنا جاری کیا گیا، اجناس پر لگنے والے ہر قسم کے محصول بند کردیے گئے.
اورنگزیب عالمگیر جہاں ایک بہترین حکمراں تھا وہیں ایک سلجھا ہوا ادیب بھی تھا. رقعاتِ عالمگیری اور فتاوی عالمگیری اس کی علم دوستی کی بہترین مثال ہیں.
شیواجی آگرہ سے فرار ہونے کے بعد دکن کے علاقوں میں مسلسل شرانگیزیوں میں مصروف تھا. اس کے سدباب کے لیے آگرہ سے اورنگزیب دکن کی جانب روانہ ہوا. اورنگزیب کے دکن میں قیام کے دوران شیواجی طبعی موت مرا اور اس کے جانشین سنبھا جی کو اورنگزیب نے گرفتار کرکے سر اٹھاتی مراٹھا طاقت کو کچل دیا. یہاں کچھ باتیں قابل فکر اور قابل ذکر ہیں کہ بعض سیکولر دانشواران کا بیانیہ اورنگزیب کے خلاف جاتا ہے اور وہ اسے کٹّر مسلم ظالم حکمران کے روپ میں پیش کرتے ہوئے اس پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے مندروں کو منہدم کیا اور مراٹھوں کا خون بہایا. مندروں کے انہدام کے معاملے میں اورچھا کے ایک مندر کا ذکر کیا جاتا ہے، اس مندر کو اورنگزیب نے ضرور منہدم کیا مگر وجہ اس کی تھی کہ اس مندر کے بانی دیو ببر سنگھ نے ابوالفضل نامی ایک مغل کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا اور اس کے پاس سے برآمد ہونے والی دولت سے اس مندر کی تعمیر کی. جب اورنگزیب نے اس مندر کو منہدم کیا تو اورچھا کے راجہ دیوی سنگھ نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا. اعتراض ہوا تو چار پانچ صدیوں بعد مشروم کی طرح اگتے دانشوروں کو ہوا.
جب اورنگزیب نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسموں پر پابندی عائد کی تو منادر اور مقابر کی آمدنی کے ذریعے کو اس بندش سے شدید زک پہنچی، چنانچہ ان مندروں اور مقبروں سے اورنگزیب کے خلاف سازشیں کی جانے لگیں. اورنگ زیب نے ان سازشوں کو ان کے انہدام سے ختم کیا، جس طرح عہد نبوّت میں منافقین کے مرکز مسجدِ ضرار کو منہدم کردیا گیا تھا.
ڈاکٹر بی ایم پانڈے نے رقم طراز ہیں کہ ”اورنگزیب جب بنگال جاتے ہوئے بنارس کے قریب سے گزرا تو اس کی فوج میں شامل ہندو راجاؤں اور کمانڈروں نے وہاں ایک دن قیام کی درخواست کی تاکہ ان کی رانیاں گنگا اشنان کرسکیں اور وشوناتھ کی پوجا کرسکیں. اورنگ زیب راضی ہوگیا اور اس نے فوج کے ذریعہ حفاظت کا پورا انتظام کیا. رانیاں اشنان سے فارغ ہوکر وشوناتھ مندر روانہ ہوئیں لیکن جب مندروں سے رانیاں واپس ہوئیں تو اس میں بعض موجود نہیں تھیں. کافی تلاش کی گئی مگر پتہ نہیں چل سکا. بالآخر تحقیق کاروں نے مندر کی دیوار میں نصب گنیش کی مورتی کو ہلایا جو اپنی جگہ سے ہلائی جاسکتی تھی تو نیچے سیڑھیاں نظر آئیں. یہ سیڑھیاں ایک تہہ خانہ کی طرف جاتی تھیں. وہاں انھوں نے دیکھا کہ بعض رانیوں کی عصمت دری کی جا چکی ہے اور وہ زار و قطار رو رہی ہیں، چنانچہ اورنگزیب کی فوج میں شامل راجپوت کمانڈروں نے اس مندر کو منہدم کردینے کا مطالبہ کیا. اورنگ زیب نے حکم دیا کہ مورتی کو پورے احترام کے ساتھ دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور چوں کہ ایک مقدس مذہبی مقام کو ناپاک کیا گیا ہے، اس لیے اس کو منہدم کردیا جائے اور مہنت کو گرفتار کرکے سزا دی جائے.“
اگر اورنگ زیب مندر شکن ہوتا تو اس کی سلطنت اور دورِ حکمرانی سے گزر کر کچھ مندر آج بھی ہندوؤں کی عقیدتوں کا محور بنے کھڑے نہیں ہوتے، لیکن وہ مندر قانونی تھے اور اس سے ریاست کے خلاف سازش نہیں ہوتی تھی، اس لیے اورنگزیب کی سلطنت میں بھی قائم رہے اور اورنگزیب نے انہیں تحفظ بھی فراہم کیا.
اورنگزیب نے جہاں ایسے مندروں کو منہدم کروایا وہیں گولکنڈہ کی جامع مسجد بھی منہدم کروائی. گولکنڈہ کے فرمانروا تانا شاہ ( جس کی بدولت اردو زبان میں ”تانا شاہی“ لفظ موجود ہے) نے سالہا سال سے شہنشاہ دہلی کو شاہی محصول ادا نہیں کیا تھا. اس نے اپنی دولت کو چھپانے کے لیے ایک بڑا خزانہ زیر زمین دفن کرکے اس پر جامع مسجد گولکنڈہ تعمیر کرا دی تھی. اورنگ زیب کو کسی طرح اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اس مسجد کو منہدم کرا دیا اور اس خزانہ کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کر دیا.
منادر، مقابر اور مساجد کے خلاف یہ اقدامات ریاستی طور پر کیے گئے تھے نہ کہ مذہبی طور پر، بالکل اسی طرح جیسے ریاست کے دفاع اور استحکام کے لیےگولڈن ٹیمپل اور لال مسجد کو سنگینوں کی زد پر لے لیا گیا تھا.
اورنگزیب کی جانب سے مرہٹوں کا خون بہانے کے الزام کے ضمن میں ڈاکٹر رام پنّیانی کہتے ہیں.
”مرہٹہ راجہ شیواجی کی جانب سے مغلیہ سلطنت کے ساحلی شہر اور اہم تجارتی بندرگاہ پر اکثر چھاپہ مارا جاتا تھا اور لوٹ مار کی جاتی تھی. اس لوٹ مار میں ہندو مسلمان کی تفریق نہیں برتی جاتی تھی، بس جسے سامنے پایا لوٹ لیا. اس لوٹ مار کے سدّباب کے لیے اورنگزیب نے فوج بھیجی اور چھاپہ ماروں کو قتل کروایا.“
لیکن ہر وقت ریاست کا راگ الاپنے والے سیکولر دانشوران اورنگزیب کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنی ریاست کے دفاع میں باغیوں کی سرکوبی اور حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکے. اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ان کی نظر میں کٹر مذہبی اور شدّت پسند ہے.
اورنگزیب پر جہاں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے ہندوؤں پر جزیہ عائد کیا، وہیں یہ نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ جزیہ عائد کرنے سے قبل ہندوؤں کو مختلف ٹیکس سے بری کردیا گیا جس میں ایک مد ”زکوۃ“ کی بھی ہے، اور جزیہ کے بدلے انہیں تحفظ کی ضمانت دی گئی اور فراہم کیا گیا.
ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ اورنگزیب کے دورِ حکومت کے بعد ہی ہند میں پرتگیزوں اور انگریزوں کی آمد ہوئی، اس لحاظ سے بھی اورنگزیب ایک ناکام حکمراں ہے. اس ضمن میں یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اورنگزیب کی جگہ دارا شکوہ بادشاہ بن جاتا تو کیا پرتگالی شراب و شباب اسی وقت ہند میں داخل نہیں ہوجاتے. اورنگ زیب کے دورِ حکومت نے تو پرتگیزوں کے اس داخلے کو موخّر کیا تھا. اور عملا اس نے نہ صرف داخلے کو روکا بلکہ پورے برصغیر کو اپنی سلطنت میں شامل کیا. یہ اعزاز اکا دکا حکمرانوں کو ہی حاصل ہوا.
بات زلف یار کی طرح دراز ہوتی جارہی ہے- اس لیے مختصراً عرض ہے کہ اس موضوع پر مطالعہ کرنے کےلیے علامہ شبلی نعمانی کی ’’اورنگ زیب عالمگیرؒ پر ایک نظر‘‘، مولوی ذکاءاللہ کی’’اورنگ زیب عالمگیرؒ‘‘، مولانا نجیب اشرف ندوی کی’’مقدمہ رقعات عالمگیر‘‘، اور ڈاکٹر بی ایم پانڈے کی ’’ہندو مندر اور اورنگ زیب عالمگیر کے فرامین‘‘ کے مطالعہ کے ساتھ یوٹیوب پر موجود معروف تاریخی محقق ڈاکٹر رام پنّیانی کے لیکچرز سنے جائیں. اس سے آپ کو یہ معلومات ملیں گی کہ اورنگزیب کی فوج میں کتنے مراٹھا سردار اور راجپوت تھے، مندروں کو اس نے کس طرح تحفظ فراہم کیا اور عدل و انصاف کی وہ نظیر کس طرح قائم کی جس کے ثنا خواں آج بھی خود غیر مسلموں میں پائے جاتے ہیں.
%d8%a7%d9%88%d8%b1%d9%86%da%af%d8%b2%db%8c%d8%a8-%d9%85%d8%b2%d8%a7%d8%b1 اپنی زندگی کے آخری ایّام اورنگزیب عالمگیر نے دکن میں ہی گزارے اور انتقال کے بعد خواجہ زر زری بخش کے آستانے کے ایک کونے میں کھلے آسمان تلے دفن ہوگیا. شاید یہ واحد مغل شہنشاہ ہے جس کے مقبرے کو چھت میسّر نہیں اور یہ خود اس کی خواہش تھی.
اورنگزیب کی اسی خواہش کی ترجمانی مولانا ابوالکلام آزاد کرتے ہیں.
.......ع
گنبد ہے گردباد تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی
قصر یاسمین کے اس دریچے میں کھڑا میں دکن تک پہنچ گیا تھا. اسی دوست نے پھر مجھے جھنجھوڑا جسے میری خاموشی سے وحشت ہوتی تھی. اس نے میرے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا.
”آگرہ میں واپس آ اور اسے دیکھ، وہ ماریہ ہے، فرانس سے آئی ہے.“
خشمگیں نگاہوں سے میں نے ماریہ کی زیارت کی اور اسے اسم بامسمّی پایا.