ہوم << 6ستمبر، یوم احتساب - نصیر ناصر

6ستمبر، یوم احتساب - نصیر ناصر

نصیر ناصر 6ستمبر کا تاریخ ساز دن ہے۔ 42 سال پہلے اس دن بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں بےسروسامان اور دنیاوی اعتبار سے انتہائی کمزور دفاعی صلاحیت کی حامل پاکستانی افواج نے قوم کے اتحاد، یکجہتی، اخلاص اور اللہ رب العزت پر یقین کی بدولت شاندار کامیابی حاصل کر کے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر چھوڑا تھا۔
6ستمبر کی یاد پورے تزک واحتشام سے ہر سال منائی جاتی ہے۔ مختلف تقاریب منعقد کرکے 1965ء کی جنگ کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی یاد میں ملی نغمے نشر کیے جاتے ہیں اور آج کل الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر اس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر و پوسٹ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔
لیکن کیا کوئی بھی دوست یہ بتانا گوارا کرے گا کہ کیا 6ستمبر منانے کے لیے بس یہی کافی ہے؟
کیا 1965ء کی اس تاریخی یادگار اور مجاھدین وطن کی لازوال قربانی کو چند کھوکھلے الفاظ اور بے روح نعروں کا خراج مناسب ہے؟
کیا آج کے اس عظمتوں کے امین دن کی یاد منانے والے سرکاری غیرسرکاری، سول وفوجی، سیاسی و مذہبی، مردوخواتین زندگی کے سارے شعبہ ہائے کار سے وابستہ امرا و غرباء، علماء و جہلا دل کی گہرائیوں سے اس بات پر مطمئن ہیں کہ
ان کی زندگی کا ہر لمحہ ملک وقوم کی سلامتی و ترقی کے لیے خرچ ہو رہا ہے۔
وہ جذبہ جس نے پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو کر کامیابیوں سے ہمکنار کیاتھا. کیا اس کی بحالی و برقراری ہماری ترجیحات میں شامل ہے؟
کیا اپنے مفاد، اپنی ذات اور اپنی انائوں کی قربانی دے کر ہم کسی ایک قیادت پر متفق ہو کر ملک و قوم کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے مقابل کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کرسکتے ہیں؟
کیا دشمن کی سازشوں کے مقابلہ کے لیے درکار تحمل، سمجھداری، معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ سے ہم سرشار ہیں؟
کیا ہم بلاتفریق فرقہ ومذہب، زبان ونسل، سیاسی وابستگی وگروہ بندی اپنی صفوں میں گھسے دانستہ یا غیردانستہ دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے والے عناصر کی نشان دہی و سرکوبی کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کاحوصلہ رکھتے ہیں؟
اگر تو یہ سب کچھ میرے اور آپ کے پاس ہے تو پھر آپ سب کومبارک ہو کہ 6ستمبر کے شہدا کا خون رائیگاں نہیں گیا ہے۔ اور اس قوم و ملک کا مستقبل عددی و دفاعی و قوت کی کمی کے باوجود بھی محفوظ، مامون اور روشن ہے۔
لیکن اگر خدانخواستہ یہ صفات ہماری زندگی سے نکل چکی ہیں۔ انفرادی مفاد کی سوچ نے اجتماعیت کو مغلوب کرلیا ہے۔ قومی وقار کے بجائے اقتدار کی ہوس کے پجاریوں کو ملک و قوم کی قیادت و سیادت سونپنے پر ہم شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور ابھی تک بھی ایسے افراد و عناصر ہمارے کندھے استعمال کرکے وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ تو پھر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہناضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم شہدائے 6 ستمبر سے وابستگی کے نعرے بلند کریں کیونکہ قوموں کی بقا اپنے ہیروز کے کارناموں پر بھنگڑے ڈالنے سے نہیں بلکہ ان کی پیروی کرنے، ان جیسا جذبہ اور اخلاص اختیار کرنے اور قربانی کی ہر حد عبور کرجانے کی عملی تعبیر پیش کرنے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور جو قوم اخلاص و وفا، اجتماعیت و اتحاد، تحمل و قوت فیصلہ اور دوست دشمن کی پہچان جیسی بنیادی صفات سے محروم ہوجائے، اس کوبڑے سے بڑا دفاعی حصار و ہتھیار یا عددی طاقت محفوظ رکھ سکتی ہے اور نہ ہی ایسی قوم کے زوال کو روکنے کے لیے کوئی دعا و دوا کارگر ہو سکتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment