کبھی کبھار عجیب و غریب سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ایسے ایسے سوالات جو بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے دیتے ہیں تو ہم ایسے طفل مکتب ان سوالوں کے سامنے کہاں ٹک سکتے ہیں؟
ہمارے گاؤں میں ایک صاحب ہیں. انہیں اپنے ”علم“ کا بہت گھمنڈ ہے۔ کہنے کو تو علم کہہ دیا، ورنہ ہوتی وہ نری جاہلانہ باتیں ہی۔ گاؤں میں مشہور ہے کہ ان کے سامنے باتوں میں کوئی ٹک نہیں پاتا۔ یہ حضور عدالت میں جاتے ہیں تو اپنا کیس خود لڑتے ہیں۔ سفر پر روانہ ہوں تو بس والے سے کرائے پہ جھگڑا ضرور کرنا ہے۔ اپنے حساب سے فی میٹر جو کرایہ انہوں نے بذات خود طے کیا، اسی کا وہ کنڈیکٹر کو حق دار سمجھتے ہیں۔ مجھ سے ان کا پالا پڑتا رہتا ہے۔ ان کے سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ سوالات سن کر ان پر ہنسنے کے بجائے خود کو کوسنے کو دل چاہتا ہے۔
ان کی معلومات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اتنی کہ نہ پوچھنے پر بھی دخل در معقولات بلکہ نامعقولات کردیتے ہیں۔ یہ کاروائی وہ تب کرتے ہیں جب سامنے کا شکاری گھر سے باہر ہوں، ورنہ ان کی جیسی طبیعت ہے، اس سے بعید نہیں کہ وہ گھر میں گھس کر دخل در ماکولات بھی کر ڈالیں۔ خیر سے ایک دن ہمارا جب ٹاکرا ہوا تو انہوں نے سوچا کہ اِس طفل مکتب کی معلومات میں اضافہ کیا جائے۔ مجھے بلایا، میں رک گیا۔ آتے ہی فرمانے لگے آپ کو پتا ہےفرعون پہلے کون تھا؟ مجھے لگا کہ شاید فلسفیانہ قسم کی بات بتانا چاہ رہے ہوں گے۔ مجھے ڈارون کے نظریے سے اتفاق نہیں اس لیے میرا جواب یہ تھا کہ وہ فرعون پہلے بھی فرعون تھا، کم از اس کا ارتقا بندر سے تو نہیں ہوا ہوگا۔ انہوں نے سر کھجایا اور زبان حال سے میری جاہلیت پر مجھے ”شاباشی“ دی۔ کہنے لگے میرا مطلب یہ ہے کہ تھا کہ فرعون بادشاہ بننے سے پہلے کیا تھا؟ یہ سوال تو آسان تھا ، میں نے کہا یقینا کوئی وزیرداخلہ یا خارجہ رہا ہوگا۔ ”او ہمم۔ میرا مطلب وہ نہیں تھا۔“ اس بار میں ہماری جہالت ابل کر باہر آگئی۔ تو گزارش کی کہ آپ اپنے سوال کی ذرا وضاحت کردیں تو میرے لیے جواب میں آسانی ہوگی۔ کہنے لگے کہ تمہیں پتا ہے فرعون کی ذات کیا تھی؟ میں سوچ میں پڑگیا۔ اس وقت تک ممکنہ ذاتیں کیا ہوسکتی ہوں گی۔ چوہدری، میاں، رانے، فلانے ڈھمکانے غرض بہت کچھ ذہن میں آیا۔ مگر مجھے اپنے علم پر اعتماد نہیں تھا۔ سو میں نے ہار مانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ وہ صاحب سمجھ گئے اور بولے ”فرعون پہلے موچی تھا۔“ پھر انہوں نے پوچھا کہ پتا ہے وہ کیسے موچی سے فرعون اور بادشاہ بنا؟ میں نے کہا میں اپنی معلومات عامہ میں اضافے کے لیے خود آپ کے آستانے پر حاضری دوں گا۔ ابھی آپ تشریف لے جائیں۔ گھر میں آپ کا انتظار ہو رہا ہوگا۔ یوں اس دن میں اتنی خجل خواری کے بعد صرف یہ پتا چلا کہ فرعون پہلےموچی تھا۔
ایک دفعہ پوچھنے لگے کہ ہابیل اور قابیل کی جس لڑکی کو لے کر لڑائی ہوئی، اُس موصوفہ کا نام کیا تھا؟ بہت سوچا کہ کوئی نذیراں، شریفاں، مائی بختو، پینو یا کچھ اور نام بتادوں مگر ضمیر مطمئن نہ ہوا. نتیجہ کہ جواب ندارد.
ایک دن پھر وہی صاحب سامنے سے آ وارد ہوئے، ہمیں دیکھتے ہی گویا ہوئے کہ اصحاب کہف کے کتے کا کیا نام تھا؟ میرے ذہن نے چھوٹتے ہی کہا ”ٹومی“ لیکن پھر سوچا کہ یہ تو کتے کا ”جدید“ نام ہے، جبکہ اصحاب کہف کے کتے کی بات سیکڑوں سال پرانی ہے. یہاں بھی ہم لاجواب ہوگئے. کافی سمے بعد نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلے تو انہی صاحب نے ہمیں آ دھرا اور ”سوالی“ پوٹلی سے ایک نایاب، منفرد، مشکل، تاریخ کے بابوں میں گم اور عجب قسم کا سوال کرڈالا. بولے ”آدم علیہ السلام کو جس مٹی سے بنایا جا رہا تھا تو ناف کی جب باری آئی تو وہاں سے کچھ مٹی نکال کر فرشتوں نے پھینک دی. اُسی ”پاک“ مٹی سے کتے کی تخلیق کی گئی، اسی لیے وہ بقیہ جانوروں کی نسبت اپنے مالک سے زیادہ وفادار ہوتا ہے، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟“
ان کا یہ سوال تھا اور میری رونی صورت. خدایا! اس کا اب کیا جواب دوں؟ ہاں بھی نہیں کرسکتا اور نہ کی بھی کوئی دلیل نہ تھی (سوال کی ”جامعیت“ اپنی جگہ مگر ناں اس لیے نہ کرسکا کہ موصوف پھر دلیل مع کتاب طلب فرماتے ہیں)
پھر وہی جواب دیا کہ جو اصولی طور پر دیا جاتا ہے کہ اس سوال کا عملی زندگی یا دنیوی و اخروی زندگی سے کیا تعلق؟ اگر کوئی تعلق ہو تو ہمیں بھی بتائیے. پھر ان سوالات کے جواب بھی ڈھونڈ نکالیں گے. موصوف کھسیانے ہوکے گویا ہوئے کہ بس معلومات ہونی چاہییں. عرض کیا حضور! یہ معلومات نہیں، چسکے ہیں جس کی آپ کو لت پڑچکی. بس ہم نے یہ کہا اور نو دو گیارہ ہوگئے. آپ کے پاس اگر ان سوالات کے جواب ہوں تو از راہ کرم مطلع کیجیے گا تاکہ ہم ان صاحب کو بتاکر ان پر اپنی علمی دھاک جما سکیں.
تبصرہ لکھیے