ہوم << کیا ہم قرآن کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کاشف خان

کیا ہم قرآن کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کاشف خان

قرآن مجید جیسی بیش بہا قیمتی کتاب اس امت کو عطا کی گئی ہے تو اس کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے، شکریہ کے معنی یہاں قرآن مجید کے حقوق ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں.

1. ایمان لانا: خدا اور اس کے رسول پر اور جو کتاب ہم نے پیغبر پر نازل کی ہے اور جو کتابیں ہم نے اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ. سورۃالنساء: 136. قرآن کو پڑھنے اور سمجنے کے لیے یہ سب سے اہم ہے کہ اس پر تہہ دل سے ایمان لایا جائے.

2. تلاوت کرنا: قرآن کو سمجھنے، عمل کرنے اور اسے آگے پھیلانے کےلیے ضروری ہے کہ اسے پڑھا جائے، تلاوت کی جائے. اس کا ذکر قرآن میں کافی جگہ ملتا ہے. جن لوگوں کو ہم نے یہ کتاب عطا کی ہے وہ اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کو پڑھنے کا حق ہے، یہی لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جو نہیں مانتے وہ خسارہ پانے والے ہیں. البقرہ :121

3. تبلیغ کرنا: قرآن کو پڑھنے اور ایمان لانے کے بعد یہ ہم پر فرض ہے کہ اسے آگے بڑھائیں. قرآن میں حکم ہے کہ ”پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (قرآن مجید) کے ذریعے سے ان سے جہاد کر.“ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن پاک کے احکامات کو آگے بڑھایا جائے.

4. سمجھنا اور عمل کرنا : یہ سب سے اہم فرض ہے، جیسا اس کا حق ہے ویسے پڑھا جائے. اور اس کے ساتھ عمل کو لازم کر لیا جائے.

خلاصہ بحث: جب تک مسلمانوں نے اسے اپنا شیوا بنائے رکھا، تب مسلمان خوشحال اور غالب ہوا کرتے تھے کیونکہ قرآن ان کی زندگی کا ایک جز تھا، کسی مسلم بستی سے گزرنے والا لازماً یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ ایک مسلم بستی ہے کیونکہ قرآن کی برکت سے اس سے الگ ہی قسم کی رونق آتی تھی. مسلمانوں میں عجیب قسم کا پیار اور اتحاد ہوا کرتا تھا مگر اب یہ کیا ہوا کہ ہر جگہ نفرت اور اختلافات کا بازار گرم ہے. آج ہم دینی اور دنیاوی حثیت سے تباہ ہو چکے ہیں اور یہ سب قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے کیونکہ قرآن ایک مرکز ہے اور جب مسلمان مرکز سے دور ہوئے تو اختلاف بڑھتے چلے گئے.. اگر ہم اپنے زوال کی وجہ خود قرآن سے پوچھیں تو وہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے حالات و نفسیات نہ بدلے.

آج پوری دنیا کے مسلمان ظلم وجور کی چکی میں پس رہے ہیں اور زبان حال سے فریاد کر رہے ہیں کہ رحمتیں ہیں تری اغیار کے آشیانوں پر، برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر، مگر اس فریاد سے پہلے ہمیں خود بحیثیت ملت یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے ناگفتہ حالات ہمارا ساتھ کیوں نہیں چھوڑ رہے. آج ہم دیکھیں کہ قرآن کو کن کاموں کے لیے استمال کیا جا رہا ہے، وہ قرآن جو قوموں کی تقدیریں بدلنے کے لیے آیا تھا اس کو ہم نے صرف قبرستانوں اور مُردوں تک محدود کر دیا ہے، اور کچھ نے اسے روزی کا ذریعہ بنا ڈالا ہے. کیا یہ ہے قرآن کا حق؟ کیا قرآن دھو کر پلانے سے حق ادا ہو گا یا تعویذ بنانے سے؟

ملت اسلامیہ کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک قرآن کے حقوق ادا نہ کیے جائیں گے. ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو وہ قرآن پاک ہے، ہماری قسمت اسی کے ساتھ وابستہ ہے، اس لیے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ قرآن کو ہم اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

Comments

Click here to post a comment