ہوم << اندھا اعتماد.... ناد علی

اندھا اعتماد.... ناد علی

تحریر ناد علی
یہ داستانِ عروج و زوال' تخلیق کائنات یعنی ابتدائے آفرینش سے لے کر حیات بشر تک آتی ہے .
پھر اشرف المخلوقات کا اعزاز سے پانے سے لے کر حیات انسانی میں پائی گئی نشانیوں کو' اس داستانِ عروج و زوال کو بارہاں کلام پاک میں دہرایا جاتا ہے ..
مگر کس لیے ؟
لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہوتی یہ داستان تخلیق کچھ مزید پیچیدہ دکھائی دیتی ہے جیسے کہ کسی مٹیالن کے گہرے گھنے بال کہ جب انکی میڈھیاں بنائی جاتی ہیں تو سانس کچھ پل رکتی نظر آتی ہے ...
اشرف المخلوقات کو جو کہ اپنی پیدائش پہ نازاں نظر آتی ہے اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ
هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ
ھل استفہامیہ کے ساتھ جهنجوڑ کر یہ بات پوچھی جاتی ہیکہ کیا انسان پر وہ وقت وہ زمانہ نہیں گزرا ؟
لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
کہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا .
پھر آخر ایسی کیا تغیر پزیری ہوئی حیات انسانی میں کہ وہ اپنے خالق یعنی مالک کن فیکون کا ہی انکار کر بیٹھا اور ظلم و بربریت کے وہ بازار گرم کیے کہ انسانیت سسکتی بلبلاتی اور پھر دم توڑتی نظر ائی .
بازارِ نمائش حسن سے لے کر بازارِ قتل و غارت تک اس انسان نے جو صدیوں پہ محیط زمانے میں کوئی قابل ذکر شے نہ تها اس حیوان ناطق نے ایک لمحے کو بهی اس بازارِ نمود و نمائش کو سرد نہ پڑنے دیا ..
اس داستان بے کراں میں عقل کو کبھی تو بیڑیاں ڈال کر زندان کی سیر کرائی گئی تو کبھی یونان میں سقراط کے ہاتھوں زہر کا پیالہ پینے پہ مجبور کیا گیا
لاشعور سے شعور کا یہ سفر اس قدر اذیت ناک ہے کہ حیات انسانی خود ہی بلبلا اٹھتی ہے شعور انسانی کو کبھی تو بیچ بازار میں گھنگرو ڈال کے نچوایا گیا تو کبھی
پیروں تلے روندا گیا ...
مگر کیا انسان نے پیدا ہونا چھوڑ دیا ؟
یا عقل و شعور کو پابند سلاسل کرنے کے بعد عقل نے جنم نہ لیا ؟
اگر ایسا نہیں تھا تو کوئی ایسا ذی حیات پیدا ہوا جو عقل کی بنیاد پہ سچ اور جھوٹ کی پرکھ کر سکے ؟
کسی عقل نے کسی متجسس روح نے کسی خود شناس نے اس صنم خانے میں خدا کی ذات کو تلاش کیوں نہیں کیا ؟
کوئی ایک شخص جس نے اپنی اور حیات انسانی کی ترجیح اول کو اس مسافر کی طرح ڈھونڈا جو صحرائے گوبی میں زندگی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے یا پھر کسی عقل نے توحید کی مئے غوروفکر سے چکھی ہو ؟
یہ وہ سوالات ہیں جو مذہب پر بصورت الزام دھرے جاتے ہیں اور مذہب کو blind faith تصور کیا جاتا ہے
مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایسا ہی ہے ؟
تقریباً 2ہزار تین سو سال قبل از مسیح ابراہیم بن تارخ بن ناخور نے جس زمانے میں آنکھ کھولی وہ دور اپنے آباء و اجداد کے عقیدوں کی بقا کا دور تھا ہر شخص نے اپنا خدا بصورت بت خود تخلیق کیا ہوا تھا یہاں تک کے ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میں پروان چڑھے وہ خاندان بذات خود بت فروش تھا ..
ابراہیم نے اپنے ارد گرد بت فروشی سے لے کر بت پرستی تک کو دیکها مگر ایک دفعہ بھی کسی بت کے آگے نہیں جھکے..
اسلام کو blind faith کہنے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ نو عمر ابراہیم اپنے بت فروش چچا کو یہ کہتے ہیں کہ
لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا..
آپ کیوں معبود بناتے ہیں انکو جو نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپکی کوئی مدد کرتے ہیں ..
ابراہیم اپنی قوم سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں اور دلائل کی بنیاد پہ غوروفکر سے کام لیتے ہوئے انکی بت پرستی کو رد کرتے ہیں
اس قوم میں صرف بت پرست ہی نہیں پائے جاتے بلکہ ایک کثیر تعداد ستارہ پرست' چاند کو خدا ماننے والوں اور آگ برساتے سورج کو سجدہ کرنے والوں کی ہے .
ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ بھی آتے ہیں اور اپنے مذہب کی دعوت دیتے ہیں ابراہیم مشاہدہ کرتے ہیں ستاروں اور چاند کا' غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں
بے شک میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا پھر سورج کی طرف نگاہ التفات کرتے ہیں شام تک کا مشاہدہ جب سورج کو ڈوبتا ہوا دکھاتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں کہ میں بیزار ہوں تمہارے ان خداؤں سے ...
پهر نوبت بت شکنی تک پہنچتی ہے مگر وہ بهی ناصحانہ انداز میں بڑے بت کے علاوہ سبهی کو توڑتے ہیں اور قوم جب اپنے خداؤں کی حالت دیکهتی ہے تو ابراہیم سے پوچهتی ہے تو کس قدر تفکر میں ڈوبا ہوا جملہ ادا کرتے ہیں کہ پوچهو اپنے بڑے سے اسی نے توڑا ہوگا ...
قوم اپنے منہ سے خود کہتی ہے ابراہیم..! یہ تو بولنے والے نہیں بھلا یہ کہاں بتائیں گے ؟ ابراہیم کہتے ہیں تو کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتے ؟
اسلام کو blind faith کہنے والوں سے یہ سوال کرنا مناسب ہوگا کہ کیا اپ نے کبھی اپنے حریف سے اسکی شکت کا اعتراف اسی کی زبان سے کروایا ؟
کیا ابراہیم کی یہ باتیں صرف جذبات ہیں محبوبانہ عقل کے سامنے ؟
کیا یہ باتیں تفکر و تدبر پہ مبنی نہیں ہیں ؟
یا پھر ناقدین اسلام بھی ایک اندھی تقلید میں پڑے ہیں جو ابراہیم کا نہیں ابراہیم کی قوم کا وطیرہ ہے ...
ہم پھر آگے دیکھتے ہیں ابراہیم کو دربار جاہ و جلال میں اس نمرود کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو جبر و قہر کا منبع نظر آتا ہے اور اپنے زعم میں خود ہی خدا بنا بیٹھا ہے
تمام درباری سر جھکائے کھڑے ہیں دل دھک دھک کرنا بھول جاتے ہیں کہ جب عقیدوں کے پیمانے ٹوٹتے ہیں تو انسان پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے
مناظرہ شروع ہوتا ہے
نمرود ابراہیم علیہ السلام سے سوال کرتا ہے
کون ہے تمہارا رب ؟
قال ابراہیم ربی الذی یحیی و یمیت
ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ،
اجسام میں موت و حیات کو پیدا کرتا ہے ، ایک بے جان نطفے سے ایک رقیق سیال مادے سے عدم سے وجود میں لاتا ہے، لا سے الا کرتا ہے نیست سے ہست میں بدلتا ہے..
قال انا احی و امیت ..
نمرود نے کہا میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں .
پھر بطور دلیل دو شخصوں کو بلاتا ہے ان میں سے جسے آزادی کا پروانہ تھمایا جا چکا تھا اسے قتل کرتا ہے اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہے..
عقلمندوں پر ظاہر ہو چکا تھا کہ جواب ممکن نہیں مگر نمرود احمقانہ دلیل پیش کرتے ہوئے خود کو بچانے کی سعی کرتا ہے ..
ابراہیم بولے اچھا ؟
بےشک میرا اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے آپ اسکو مغرب سے لے آئیے ..
فبھت الذی کفر ..
کافر مبہوت ہو کہ رہ جاتا ہے ہوش اڑ جاتے ہیں
آپ بس ایک لمحے کو خود کو دربار نمرود میں تصور کیجئے اور دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ ابراہیم کے دلائل' ابراہیم کا دین اندھوں کا دین ہے ؟
کیا ابراہیم کا دین بغیر سوچے سمجھے مفروضے قائم کرنے اور پھر ان پر ایمان لانے کا دین ہے ؟
آپ کی شکست خوردہ نظر واپس لوٹ آئے گی
مگر نشانیاں تو سوچنے والوں کے لیے ہیں ..
اس ذی حیات کے لیے ہیں جو دی گئی عقل کو استعمال کرتا ہے سوچتا ہے سمجھتا ہے ...
نیٹشے کا یہ قول سنانے والے کہ
' if u wish to strive for peace of soul and happiness,
Then Believe ,
If u wish to to be disciple of truth ,
Then inquire '
ہمیں blind faith کا طعنہ دیتے ہیں
مگر مصیبت در مصیبت یہ ہیکہ قرآن اٹھا کر نہیں دیکهتے
کیا قرآن غوروفکر اور تحقیق سے منع کرتا ہے ؟
قرآن کیا کہتا ہے
ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلاً
اور وہ جو زمین و آسمان کی خلقت کے رازوں کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں( اور کہتے ہیں) اے پالنے والے تونے انھیں بیکار خلق نہیں کیا ہے۔
قرآن بھی تو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے تفکر و تدبر پہ آمادہ کرتا ہے اوندهے منہ آیتوں پہ پڑنے والوں کو چوپایوں سے بدتر کہتا ہے ..
مگر یہ کہ اسے کوئی کھولے تو سہی سمجھے تو سہی
یہاں تک تو تھا غیروں کا مسئلہ اور غیروں کی باتیں ..!
مگر اس سب میں امت مسلمہ کا زوال کیوں ہے ؟
زوال یوں ہیکہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
( علامہ اقبال علیہ الرحمہ)
اور بقول پروفیسر احمد رفیق عقل جہاں رکتی ہے وہاں بت خانہ تخلیق کرتی ہے ہم نے اس تحفہ خداوندی عقل و شعور کو پس پشت ڈالا، ہم نے اپنے زعم میں فرقہ پرستی سے لے کر شخصیت پرستی تک چھوٹے چھوٹے بت خانے تخلیق کیے اور پھر اسی پہ ڈٹ گئے ...
واعظ نے ہمیں معجزوں اور تقدس کی دنیا میں گھمانے پہ اکتفا کیا
نخیل و اعناب کے قصے اور حوروں کی جلوہ گری ہی دکھائی بس'
فرقوں میں بانٹا اور خود مسند تقدس پہ براجمان ہو گئے اور ہم نے سہمے ہوئے یہ سب قبول کر لیا ..
مگر کیا ابراہیم علیہ السلام کا دین صرف معجزوں کا دین تھا ؟
ابراہیم علیہ السلام کا دین تو غوروفکر کا دین تھا 'سوچ و بچار کر کے فیصلہ کرنے کا دین تھا
تحقیق کا دین تھا' اپنے اعتقاد کو مضبوط دلائل پہ قائم کرنے والوں کا دین تھا .
ابراہیم علیہ السلام کا دین آیتوں پر اوندھے منہ پڑنے والوں کا دین نہی تھا blind faith والوں کا دین نہی تھا چمتکار و فریب روزگار کا دین نہی تھا ابراہیم کا دین اسلام تھا صرف اسلام ..
مگر ہم نے کیا ظلم کیا اپنی جانوں پہ آج ہمارا دین کیا ہے ..؟
آج ہمارا دین سنی ہے شیعہ ہے وہابی ہے دیوبندی ہے اہل حدیث ہے نہی ہے تو اسلام نہیں
اب یہ ہیکہ
یہ زوال ختم نہیں ہونا یہاں تک کہ فرقوں سے آگے نکل کر ہم دین ابراہیمی پہ اپنی دلیلوں کو استوار نہ کر لیں عقل و شعور کا ادراک کر کے اسے جانچ نہ لیں .
ہم جس دن اسلام کی اصل کو لوٹے وہ امت مسلمہ کے زوال کا آخری دن ہوگا
کہ
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن.

Comments

Click here to post a comment