ہوم << سنو صاحِب! ہمیں کچھ مت کہو - مولوی انوار حیدر تونسوی

سنو صاحِب! ہمیں کچھ مت کہو - مولوی انوار حیدر تونسوی

مولوی انوار حیدر المیہ یہ ہے کہ ہمارے بعض مسلمان دین کی تشریح غیردینی بنیاد پر کرتے ہیں. یہ احباب دینِ اسلام کو دیگر مذاہب کے قوانین، دیگر اقوام کے تمدن اور کسی دوسری سوسائٹی کے کلچر پر جانچنے کی مشق کرتے ہیں. جب دو متضاد تہذیبوں کا تقابل کیا جائےگا تب فرق تو لازم ہے مثلاً آپ ہندو تہذیب کا موازنہ جاپانی کلچر سے کریں گے تو یہ دونوں اپنی فی نفسہ خوبیوں کے باوجود ایک دوسرے سے متضاد ٹھہریں گے، پارسی رسومات کا موازنہ اسماعیلی رسومات سے کریں‌گے تو قُطبین کا فاصلہ لازم ٹھہرے گا، سیاہ و سفید کا تقابل کریں گے تو یہ دونوں بےزبان رنگ باہم مدغم نہ ہوں گے اور آپ کے نزدیک ضدی اور جھوٹے قرار پائیں گے. تقابل کے لیے بنیاد ایک ہونا لازم ہے. آپ دو اور تین کے عدد کو باہم ضرب دے سکتے ہیں مگر اِن کو کسی حرف کے ساتھہ ہرگز ضرب نہیں دے سکتے مثلاً پانچ ضرب الف. یہی حال اسلامی تہذیب اور غیرمذاہب کی تہذیب کے طرزِ زندگی کے تقابل کا ہے. تمام انسان مذہبی بنیادوں پر چند مشترکہ عقائد کے علاوہ تہذیب و اطوار اور رسوم و رواج میں کبھی ہم آہنگی حاصل نہیں کرسکتے یا تو آپ کو دوسرا طرز مکمل اختیار کرنا ہوگا یا اپنے پر ہی مکمل طور چلنا ہوگا.
اسلام ایک مکمل دین ہے، محض عقائد و عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے جس کی بنیاد اللہ کا کلام اور پیغمبرِاسلام ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے، آپ اِس بنیاد کو چھوڑ تو سکتے ہیں مگر تبدیل نہیں کرسکتے. پیش آمدہ تمام معاملات و مسائل کو اِنہی دو بنیادوں پہ حل کرنا ہوگا، ہمہ قسم اندرونی خلفشار اور بیرونی مخالفت کے باوجود ایک کثیر تعداد کمیونٹی کا اِن مذکورہ دو بنیادوں پہ قائم رہتے ہوئے اپنی زندگی کو مکمل سہولتوں سے گذارنا اور مطمئن ہونا اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن و سنت سے حاصل تھیوری انسانی زندگی کے تمام مسائل کا بہتر اسلوب سے جواب دیتی اور انھیں حل کرسکتی ہے. اگر کسی مسلمان کی مطلوبہ ضروریات دین سے مہیا نہیں ہوتیں تو یقینی سی بات ہے کہ وہ اپنے دائرے اور ضرورت سے تجاوز کررہا ہے مثلاً آپ کی گنجائش دو گلاس پانی ہے اگر آپ چار گلاس پیئں گے تو یقیناً تکلیف ہوگی، آمدن سے زیادہ خرچ کریں گے تو پریشانی ہوگی، سو اپنی حد میں رہنا لازم ہے، اپنی راہ چلنا ضروری ہے. موٹروے پہ اپنی لین توڑ کے دوسری لین پہ جانے کی صورت میں آپ مجرم تصورٹھہرائے جاتے ہیں، جرمانہ لگتا ہے، اپنی لین میں چلنا ہوگا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ گاڑی زِگ زیگ دوڑانے لگ جائیں. یہی معاملہ دینِ اسلام کا ہے یہاں بھی اپنی لین میں رہنا ضروری ہے، جس نے سیدھا چلنا ہے اُس پہ لازم ہے کہ اپنی لین میں چلتا رہے، چنانچہ اسلام پسند ہر انٹرچینچ کو کراس کرنے کے بعد مسلسل اپنی ہی لین پہ آرہے ہیں.
اگر کسی کو آج اعتراض یا خوف ہے کہ مذہبی طبقہ موجودہ سوسائٹی سے کٹ کے زندگی گزار رہا ہے تو بخدا وہ تسلی اور یقین رکھے کہ آئندہ صدی میں بھی یہ شکوہ برقرار ہوگا. دین بیزار لوگوں کو جس فکر پر جو اعتراض ہے، یہ فکر کسی کی خودساختہ نہیں ہے یہ تو منقولی ہے، منزل مِن اللہ ہے اور اِس فکر و اسلوب پر ہزار یا لاکھ نہیں کروڑوں لوگ خوش باش ہیں اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں، اُن کو وقت کے ساتھ بدلتی طبیعتوں سے مکمل بےنیازی میسّر ہے، روشن خیالی کے نام پر مروّ ج آزادخیالی نے اُن کو ذرا بھی متاثر نہیں کیا، وہ بقائمی ہوش و حواس اپنے طرزِ زندگی پر مطمئن ہیں. کسی کو حق حاصل نہیں کہ اُن کے طرزِ زندگی پر اعتراض یا مداخلت کرے. جو لوگ اعتراض کرتے ہیں اُن کے پاس ماسوائے تبدیلی کے مطالبہ کے کچھ بھی دلیل نہیں جبکہ مذہبی اقدار پر کاربند طبقہ دیگر لوگوں کی طرح دورِحاضر کے تمام ٹارگٹ حاصل کیے ہوئے ہے. دینی اقدار کو خود چھوڑ کے پیروکار پر اعتراض کرنا بھی شدت پسندی کی ایک قِسم ہے. تعجب اور حیرت ہے اُن لوگوں پر جو لائن پر چلنے والوں کو لائن توڑنے کی دعوت دیتے ہیں، زگ زیگ نہ کھیلنے پر طعنہ زنی کرتے ہیں. مستحکم قوانین کو توڑنا انتشار کا باعث ہوتا ہے، جو لوگ مسلمانوں کو دینی اقدار چھوڑ کر ماڈرن ازم اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں، اُن سےگذارش ہے کہ بےدینی کی انتہاپسندی ترک کردیں اور شرعی طرزِ زندگی اختیار کریں. اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو کم از کم اِتنا احسان کردیں کہ دین داروں کی زندگی میں مداخلت نہ کریں، اُنہیں اُن کی زندگی جینے دیں اُنہیں کچھ مت کہیں. شکریہ

Comments

Click here to post a comment