ہوم << معصوم خواہش - سعید بن عبدالغفار

معصوم خواہش - سعید بن عبدالغفار

سعید عبدالغفاریتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کافی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ ادارے تو بہترین طریقے سے معاشرے کی اس ذمہ داری کو اپنے تئیں ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ادارے کی طرف سے منعقدہ ایک پروگرم میں شرکت کا موقع ملا جس میں یتیم بچوں کو نئےکپڑے، جوتے اور بیگ دیے جا رہے تھے. خوبصورت لباس میں ملبوس بچے اس بات کےگواہ تھے کہ اس فلاحی ادارے نے واقعی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ پھول جیسے بچے اس بات سے قطعی بےخبر تھے کہ سایہ پدری سے محرومی نے ہی اس پروگرام کو جواز بخشا ہے اور اسی بنا پر وہ ان چیزوں کے مستحق ٹھہرے ہیں.
مہمانوں کی گفتگو اور تحائف کی تقسیم ہو ہی رہی تھی کہ اچانک دور کھڑے ایک میلے کچیلے بچے پر نظر پڑی جو ٹکٹکی باندھے یہ مناظر دیکھ رہا تھا. پروگرام کے اختتام پر میں اس کے پاس گیا تو اندازہ ہوا کہ اس کی عمر سات سے آٹھ سال کے درمیان ہے۔ مجھے اپنے پاس آتا دیکھ کر وہ بھاگنے لگا مگر میں نے اسے روک کر کہا کہ آپ کو معلوم ہے نا کہ یہ سب کچھ ان بچوں کے لیے ہے جن کے باپ نہیں ہیں، جیسے وہ انس ہے اس کے ابو ایکسیڈنٹ میں مرگئے تھے، وہ عمران ہے اس کے ابو پچھلے سال کینسر سے مر گئے. بےچارگی کی تصویر بنا وہ بچہ یکایک کہنے لگا کہ پھر میرے ابو کیوں نہیں مرتے، میں بھی یتیم ہوجاؤں، اور مجھے بھی یونیفارم مل جائے، سب ہنستے ہیں کہ تیرا ابونشئی ہے، وہ اپنا نشہ پورا کرے گا، تمہیں یونیفارم نہیں دلائے گا، میں تو عید پہ کپڑے بھی نہیں بنا سکتا کیونکہ نشہ میرے ابو کرتے ہیں مگر سب نفرت مجھ سے کرتے ہیں۔ یہ دیکھیں ان کو تو پیسے بھی ملتے ہیں، مجھے تو کوئی بھی نہیں دیتا، نہ امی نہ ابو اور نہ ہی یہ لوگ؟
باقی کے سوالات مجھے اس کی آنکھوں میں خواہشات اور حسرتوں کی صورت میں نظر آئے. ایسے بہت سے بچے ہیں جن کے والدین کا ہونا نہ ہونا برابر ہے اور ان کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے معاشرہ اگر تیار نہیں تو اچھے فلاحی اداروں کو کم از کم یتیم بچوں کی امداد بھی کسی معروف طریقے سے کرنی چاہیے. اس لیے تو اسلام کہتا ہے کہ صدقہ اس طرح دینا چاہیے کہ ایک ہاتھ سے دیا جائے تو دوسرے ہاتھ کو معلوم نہ ہو، کہیں نادانستگی میں یہ اہتمام کسی باپ کے لیے بددعا نہ بن جائے. ہوسکتا ہے کہ ادارتی مجبوریوں کی وجہ سے سوفیصد اس پہ عمل ممکن نہ ہو مگر کوشش تو کی جا سکتی ہے جب معاملہ بچوں کا اور ان کی حساسیت کا ہو، اور جب ان کی معصومیت سوال بن کر کسی کی موت کا سندیسہ اور دعا بن جائے. مجھے یقین ہے کہ اس تحریر سے کسی ایک بندے کی آنکھ کھل گئی تو بھی کافی ہے۔

Comments

Click here to post a comment