ہوم << قادری آ رہے ہیں - آصف محمود

قادری آ رہے ہیں - آصف محمود

آصف محمود طاہر القادری راولپنڈی میں نہیں رکیں گے۔ وہ اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔
ہو سکتا ہے یہ میرا ضعف بصارت ہو لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک قصاص اور تحریک احتساب کا اصل مقصد وہ نہیں جو بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ مقصد کچھ اور ہے ۔ طاہر القادری صاحب مری روڈ سے اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔ یوں دارلحکومت میں وہی کھیل شروع ہو جائے گا جو اس سے قبل ناکام ہو چکا۔
چند پہلو اس باب میں انتہائی قابل توجہ ہیں۔
1۔ احتجاج ظاہر ہے جمہوری حق ہے لیکن کیا احتجاج کے نام پر دارالحکومت پر یلغار کرنے کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا اسلام آباد میں آ کر ڈیرے جمانے سے جیسا ماضی میں ہوا ہے، آپ دنیا میں اپنی ریاست کا مذاق نہیں اڑاتے۔
2۔ اگر کوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں کو سی پیک کے خلاف سازش تصور کیا جاتا ہے تو اسلام آباد پر اس طرح کی یلغار کو بھی ایسی ہی ایک سازش کیوں تصور نہیں جا تا۔ اگر ہم سی پیک کی کامیابی کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان لشکریوں کو ایک پیغام تک نہیں بھیجا جا سکتا کہ احتجاج ضرور کیجیے لیکن ریاست کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
3۔ منتخب وزرائے اعظم کو ہمیشہ اس ملک میں ولن بنا کر کیوں پیش کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔
4۔ بطور ادارہ فوج بہت محترم ہے، اور ہمارا آخری دفاعی حصار بھی۔ اسی طرح پارلیمان بھی بہت محترم ہے اور قومی وحدت کی علامت بھی ہے۔ دونوں کا احترام لازم ہے، اور دستور کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
5۔ یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ نواز شریف ملک دشمن ہے اور اسے ملک کی سلامتی اور بقاء سے کوئی دل چسپی نہیں۔ حب الوطنی نصاب نہیں جس کے جملہ حقوق بحق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ محفوظ ہوں۔ سوچنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے اور ایک جمہوری وزیر اعظم کو اس کا حق بھی ہے۔ اس پر تنقید بھی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کی حب الوطنی کا آملیٹ بنانے کی کوششوں کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں۔
6۔ جو چین آف کمانڈ سپاہی سے آرمی چیف تک ہوتی ہے وہی چین آف کمانڈ آرمی چیف سے وزیر اعظم تک قائم ہونے میں کیا چیز رکاوٹ ہے۔
7۔ اس ملک کے نظام قانون و انصاف کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قادری صاحب کے لوگ مرے ہیں۔ حکومت نے نہیں مارے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس نے مارے۔ قاتل پکڑنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ریاست انسانی جان کی حرمت کے بارے میں اس طرح بے نیازی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہے۔ کیا اس طرح سماجی توازن قائم رہ سکتا ہے اور انتہا پسندی ختم کی جا سکتی ہے۔
اور آخری بات کسی کو اچھی لگے یا بری، یہ ہے کہ نواز شریف کی جمہوری حکومت اگر غیر فطری طریقے سے گھر بھیجی گئی تو یاد رکھیے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہو جائیں گے۔ جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیجیے۔ یہ راستہ کٹھن سہی لیکن راستہ یہی ہے۔ اور کسی راستے سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ تبدیلی کا یہی ایک فطری راستہ ہے جسے ارتقاء کہتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment