ایک زمانہ تھا جب مہاجر حسین امریکا میں سیاسی پناہ لینا چاہتے تھے مگر انھیں الطاف حسین کے علاوہ کوئی سیاست دان نہ جانتا تھا۔ پھر وہ اتنے مشہور ہوئے کہ کراچی اور حیدرآباد کی ہر گلی میں ان کی تصویر تھی، سیاست دان ان کے گھر یوں حاضری دیتے کہ لگتا اب بھی الطاف حسین کے علاوہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ آج کل وہ لندن میں ہیں جہاں کام اور زکام ہی ہوتا ہے ۔مگر اب لگتا ہے الطاف حسین بھی انھیں نہیں جانتا۔ وہ جتنی دیر ہسپتال میں رہے اتنی دیر تو اپنے گھر میں نہ رہے ہوں گے۔ صرف اس وقت ہسپتال سے باہر آتے جب دوسرے ہسپتال جانا ہوتا۔ گھر کو بھی ہسپتال کی طرح اتنا صاف رکھتے کہ لوگ نہ صرف اُن کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے پائوں صاف کرتے بلکہ کمرے سے نکلنے سے پہلے بھی کرتے۔ ان کے حمایتیوں کی طرح مخالفوں کا بھی زیادہ وقت ہسپتالوں میں ہی کٹتا۔ یوں سیاست میں وہ الطاف بھائی کے بجائے ہسپتال بھائی کے طور پر اُبھرے۔ لوگ انھیں دوست نہیں بھائی کہتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دوست تو بندہ اپنی مرضی سے بناتا ہے۔
1947ء میں بٹوارہ ہوا، تو جو ’’خانساماں‘‘ تھا اس کا ’’خان‘‘ اِدھر آگیا اور ’’سامان‘‘ اُدھر رہ گیا۔ برتن یوں بٹے کہ ’’بر‘‘ اُدھر اور ’’تن‘‘ اِدھر۔ سردار جی کے تو ’’ٹرانسسٹر ‘‘ کا یوں بٹوارہ ہوا کہ ان کے پاس ’’ٹرانس‘‘ ہی بچی ’’سسٹر‘‘ پیچھے رہ گئی۔ مہاجر حسین نے کراچی اور حیدر آباد میں جو مہاجر تھے انھیں ایم کیو ایم کا رُکن بنایا جو نہیں تھے انھیں مہاجر بنایا۔ مہاجر حسین خود آگرے میں پیدا ہوئے اور وہاں سے کراچی میں آگرے۔ ان کے دل میں مہاجروں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، جو اسلامی جمعیت طلبہ اور پولیس نے کوٹ کوٹ کر بھری۔ ان کی سیاسی عمر اتنی ہی ہے جتنی ان کی اپنی عمر ہے۔ انھوں نے اپنی لائف سٹوری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ایم کیو ایم کی ہسٹری مہاجر حسین کی لائف ہسٹری ہی ہے۔ انھیں جہاں پناہ ملی وہاں جہاں پناہ بن گئے۔
بچپن میں پسندیدہ کھیل لڑائی تھا۔ ان کی والدہ جب انھیں خوش کرنا چاہتیں، تو کوئی لطیفہ نہ سناتیں، بس یہ بتاتیں کہ ساتھ والی گلی میں لڑائی ہو رہی ہے اور وہ خوش ہوجاتے۔ بچپن میں وہ کھلونے پسند تھے جس میں فوجی ہوں۔ پاکستانی فوجی کھلونے اس لیے پسند تھے کہ بادشاہ اور وزیر کے کھیل میں بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ امریکی فوجی کھلونے اس لیے کہ ان کے تو ڈبوں میں بھی ائیر کنڈیشن لگانا پڑتا ہے۔ جبکہ چینی فوجی کھلونے وہ ہیں جنھیں کبھی ڈبوں سے باہر نکالا ہی نہیں جاتا، نوجوانی میں بُری طرح فوج میں جانے کا شوق تھا سو بُری طرح گئے اور آئے۔
جامعہ کراچی میں بی فارمیسی میں تھے، تو اس کا ریکارڈ توڑنے کی کئی بار کوششیں کیں مگر پولیس نے ریکارڈ ٹوٹنے سے بچا لیا۔ ان دنوں اُن کے پاس سر ڈھانپنے کے لیے ایک ٹوپی اور پہننے کے لیے ایک عینک ہوتی تھی۔ چلنے کے لیے ففٹی موٹر سائیکل جو ففٹی موٹر تھی اور ففٹی سائیکل یعنی سواریاں اس پر موٹر کی بیٹھتیں اور وہ چلتی سائیکل کی طرح۔ وہ پٹرول سے نہیں اُمید سے چلتی اور چلتے ہوئے ایسے ہی لگتی جیسے واقعی اُمید سے ہو۔ نقل و’’ حمل ‘‘کی وجہ سے اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ لوگ یہ نہ پوچھتے یہ کس کی ہے؟ یہ پوچھتے یہ کیا ہے؟ وہ ان کی زبان سمجھتی اس لیے وہ بریک کا کام بھی زبان سے لیتے، یعنی کوئی سامنے آجاتا تو بریک کے بجائے اپنی زبان کا استعمال کرتے۔ یوں گاڑیوں کے نیچے آتے آتے وہ وقت آیا کہ ان کے نیچے گاڑیاں آنے لگیں۔ ابتدا میں تو مالی حالت ایسی تھی کہ کوئی مصیبت بھی مول نہ لے سکتے ،وہ بھی اُدھار ہی لینا پڑتی۔ روزانہ شام کو جن سے قرض لینا ہوتا ان کی میرٹ لسٹ بناتے اور جس کا اُدھار سب سے زیادہ ہوتا اس سے مزید اُدھار لینا بند کر دیتے ،تا وقتیکہ کسی اور کا اُدھار اس سے زیادہ نہ ہوجاتا۔ پھر وہ ایسے امیر ہوئے کہ ایسے تو کسی جماعت کا امیر نہ ہوا۔
وہ پہلے الطاف حسین تھے، پھر مہاجر اسٹودنٹس آرگنائزیشن بنے اور پھر ایم کیو ایم کہلائے۔ 1986ء میں ایم کیو ایم کے جلسے میں بادل اور بے دل مہاجر حسین برسے اور پاکستانی سیاست میں سیلاب آگیا۔ اس کے لیے وہ جیلوں میں مچھر اوڑھ کر سوئے مہاجر حسین کی اسی کسرت نے ایم کیو ایم کو کثرت دی۔ کہتے ہیں ایم کیو ایم کو چلانا بڑے دل گُردے کا کام ہے اور ڈاکٹروں نے ثابت کیا کہ واقعی ان کا گُردہ بڑھا ہوا ہے، اسی وجہ سے بیس سال کی عمر میں بھی بیسیوں کے تھے۔
رنگ ایسا کہ میلا کپڑا بھی پہن لیں، تو کپڑا اُجلا لگنے لگے۔ پاجامہ پسند ہے۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ پاجامہ پہنا جاتا ہے اور شلوار پہنی جاتی ہے، یوں وہ پاجامے میں پھولے نہیں سماتے۔ عینک چہرے کا لباس ہے، اس لیے عینک کے بغیر محفلوں میں نہیں جاتے۔ شاید اسی لیے بزرگ عینکوں کو پہننے کے لیے پیچھے رسی آزار بند کی طرح باندھے ہوتے ہیں۔
جذبات اور جزیات کے سمندر ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ جاننے کے لیے کہ کراچی کا موسم گرم ہے یا سرد۔ لوگ محکمہ موسمیات کے بجائے مہاجر حسین کے بیان دیکھتے، کیونکہ وہاں سردی اور گرمی کا موسم ایسا ہوتا ہے کہ منٹ میں سردی گرمی ہوجاتی ہے۔ ویسے بُرے موسم کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، یہ ہے کہ جہاں موسم اچھا ہو وہاں لوگوں کو آپس میں لڑنے کے لیے مذہبی تفرقہ بندیوں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ مہاجر حسین چُپ ہوں، تو دوست پریشان ہوجاتے ہیں اور ڈاکٹر کو بلانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ زبان چل رہی ہے تو سمجھ لیں ان کی سانس چل رہی ہے۔ زبان بند ہے تو ڈاکٹر زبان نہیں، نبض دیکھتے ہیں۔ جہاں بولنے کا موقع نہ ملے وہاں بھی چُپ نہیں ہوتے۔ سارا دن بول بول کر اس قدر تھک جاتے ہیں کہ بمشکل اپنا منہ بند کرسکتے ہیں۔ اِن کا جو آپریشن ڈاکٹر ایک گھنٹے میں کر لیتے، اس کی تفصیل بتانے میں مہاجر حسین ایک ماہ لگا دیتے ہیں۔ ٹیلی فون پر تقریریں کر کرکے یہ حال ہوگیا کہ بھائی کو بھی فون کریں، تو ہیلو یوں کہیں گے ’’عزیز ساتھیو، بزرگو میری تحریکی مائوں اور بہنو ہیلو!‘‘ عزیز آباد جواب انھیں عزیز ہے نہ آباد، وہاں ان کے گھر میں15ٹیلی فون تھے۔ کسی نے پوچھا ’’یہاں 15فون کیوں ہیں؟‘‘کہا ’’اس لیے کہ اِس سے زیادہ کی جگہ نہیں ہے۔‘‘ پہلی بار آنے والے غیرملکیوں کو بتاناپڑتا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ٹیلی فون ٹھیک کرکے روزی کماتے ہیں یہ ٹھیک نہ کرکے بھی کما لیتے ہیں۔
ان کا پسندیدہ دوست الطاف حسین ہے۔ ’’ایسے‘‘ دوست کی صحبت میں رہ کر یہ بھی ’’ویسے‘‘ ہوگئے ہیں۔ شیشہ دیکھتے ہوئے بھی یہ سمجھتے ہیں وہ شیشہ نہیں دیکھ رہے ،شیشہ انھیں دیکھ رہا ہے۔ ان دنوں بندہ کراچی میںکسی سے ان کے پتے کا پوچھتا تو مہاجر ’’کروٹن‘‘ کے پتے کا بتاتے۔
جاگیرداروں نے سیاست کو اتنا مہنگا کر دیاکہ الیکشن ہارنے کے لیے بھی لاکھوں روپے چاہئیں۔ لیکن انھوں نے سیاست کو سستا کردیا۔ وہ اس پر یقین رکھتے کہ جو ایک کو مارے وہ قاتل ، جو بہت سوں کو مارے وہ فاتح اور جو سب کو مارے وہ خدا ہوتا ہے۔ انھیں کوئی کام کرنے کا غلط طریقہ بتاتا تو کہتے ’’مجھے وہ طریقہ بتائو جو پہلے مجھے معلوم نہ ہو۔‘‘ کہتے ہیں تعلیمی ادارے ان دنوں ’’تعلیم و تُربت‘‘ کا مرکز بن گئے۔ رشتوں کا یہ عالم ہوا کہ جسے سب بُرا اور ناقابل اصلاح سمجھتے اسے دادا کہہ کر بلاتے، مہاجر حسین خود کو سیلف میڈ کہتے ہیں جبکہ لوگ انھیں میڈ اِن مارشل لا لکھتے ہیں۔ کچھ غوث علی شاہ کو پیر مہاجر حسین کا ’’غوثِ اعظم‘‘ سمجھتے ہیں۔ ویسے وہ سیلف میڈ نہیں لگتے کہ اگر انھوں نے خود کو آپ بنایا ہوتا تو ایسا بنایا ہوتا؟
ڈاکٹر کے لیے تو دنیا میں دو قسم کے لوگ ہی ہوتے ہیں ایک وہ جو بیمار ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جنھوں نے بیمار ہونا ہوتا ہے۔ یوں بھی بیمار ہونا ڈاکٹروں کی مالی امداد کرنا ہی ہے۔ سو مریض الملت مہاجر حسین کے کسی اور پر احسانات ہوں نہ ہوں ڈاکٹروں پر ضرور ہیں۔ بچپن میں وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بن کر مریضوں کے کام آنا چاہتے تھے یہ تو نہ کرسکے مگر مریض بن کر ڈاکٹروں کے کام آئے۔ صحت کی ا نھیں اتنی فکر رہتی کہ کسی کو صحت مند دیکھ لیتے تو انھیں فکر ہونے لگتی۔ بچپن میں وہ محلے کی کلب میں لوہے کے باٹ اُٹھایا کرتے اور ایک بار باٹ اُٹھاتے پکڑے بھی گئے۔ فروری کے مہینے میں سب سے کم دن بیمار رہتے، جس کی ایک وجہ یہ ہوتی کہ فروری میں سب سے کم دن ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم نے مہاجر نوجوانوں کے لیے Health Clubsبنائے جو بعد میں Hell Clubsنکلے، جہاں ڈرل کے لیے ڈرل ماسٹر نہیں ڈرل مشینیں تھیں۔ مہاجر حسین کا مخالفوں سے جو برتائو ہوتا ہے اس میں بَرکم اور تائو زیادہ ہوتا ہے۔
وہ ہر کام یقین سے کرتے ہیں وہ تو شک تک یقین سے کرتے ہیں۔ ہمارا اُردو زبان پر یہی احسان ہے کہ ہم پنجابی بولتے ہیں لیکن انھوں نے اُردو کو نئے نئے محاورے دیے۔ ان میں یہ نامعقولہ بھی ہے کہ زن، زر، زمین اور زبان فساد کی جڑ ہے۔ یوں جو پہلے مہاجر حسین کو عمر دراز ہونے کی دعا دیتے ،پھر یہی دعا زبان کے لیے دینے لگے۔ انھوں نے کراچی کو ریاست بنایا مگر اسے سمجھا خالدہ ریاست، ان دنوں کراچی کی سڑکوں پر مہاجر حسین کی اتنی بڑی بڑی تصویریں ہوتیں کہ دوجا پانی تو اپنے ملک کے فلمی رسالے کے لیے ان کا انٹرویو کرنے پہنچ گئے۔ ان کی بامثال کامیابی کی وجہ ان کا یہ اصول تھا کہ سیاست میں اصولوں پر سودا بازی نہیں ہونی چاہیے، اس کے بغیر ہونا چاہیے۔ اب ان کے پاس خدا اور خلقِ خدا کا دیا سب کچھ ہے۔ صفائی اس قدر پسند ہے کہ ان کا حکم ہے ہر کام صفائی سے کرو۔ پریس کو انھوں نے جتنا پریس کیا آج تک کوئی نہ کر سکا۔ کہتے ہیں میری شادی ایم کیو ایم سے ہوئی ہے۔ ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ سلوک سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔
وہ پاکستان کے پہلے سیاست دان ہیں جنھوں نے باقاعدہ سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ ہمارے ایک مشہور نقاد نے کہا ’’میں فلاں اعلیٰ افسر پر ایسا مضمون لکھ رہا تھا کہ وہ فیض اور ندیم کے پائے کے شاعر بن جاتے مگر…؟‘‘ ہم نے پوچھا ’’مگر کیا اس نے شاعری چھوڑ دی؟‘‘ کہا ’’نہیں وہ ریٹائرڈ ہوگئے‘‘ یہی حال ان کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد ہوا۔ اگرچہ سیاست میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا بھی سیاست کرنا ہی ہے۔ سیاست دان تو کہے کہ میں مر چکا ہوں، تب بھی سمجھیں اپنی قیمت بڑھا رہا ہے کہ ہاتھی، سفید ہی کیوں نہ ہو زندہ لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا۔ کچھ تو سیاست میں زندہ ہی اسی صورت رہ سکتے ہیں کہ وہ مر جائیں۔ تاہم مہاجر حسین یہ بھی کہیں کہ میں مر گیا تو سننے والا یہی پوچھے گا ’’کس پر؟‘‘ وہ جب ہسپتال میں ہوتے تو صرف ایک آدھ بندے کو پتا ہوتا کہ وہ کس بیماری کے ساتھ داخل ہیں کیونکہ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ’’بیماری‘‘ کو ساتھ والے کمرے میں بھیج دیا جاتا۔ ویسے بھی ہسپتال میں تبدیلیٔ دل کے آپریشن ہوتے رہتے ہیں لیکن بندہ کسی پارک میں تبدیلیٔ دل کرتا پکڑا جائے، تو کوڑے پڑ جائیں۔ بہرحال ہم تو مہاجر حسین کے بارے میں جاننے کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ دولت، عزت، صورت اور سیرت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔
(بشکریہ اردو ڈائجسٹ)
تبصرہ لکھیے