جب پاکستان انگلینڈ ون ڈے سیریز شروع ہوئی تو ایک دوست جنہیں کرکٹ کی بہترین سمجھ اللہ نے عطا کی ہے، ان کا فرمانا تھا کہ اس بار یہ سیریز انگلینڈ یا تو وائٹ واش کرے گا یا 4-1 سے جیت لے گا. ٹیم کی بری ترین حالت کے باوجود میرا گمان تھا کہ مقابلہ بہت قریبی رہےگا اور شاید ہم یہ سیریز بھی جیت سکیں، مگر کل والا میچ دیکھ کر اب مجھے ان کی بات سے اتفاق کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا. رات ناصر حسین بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی یہ ٹیم کسی طرح بھی ایسا ون ڈے یونٹ نہیں لگتا جو 300 رنز بنا سکے. کبھی ہم سوچتے تھے کہ کوئی بات نہیں، ہماری بیٹنگ 240 تک کر لے تو ہم بائولنگ کے سہارے جیت جائیں گے مگر اب حالات بدل گئے ہیں. اب تو آسٹریلیا اور انگلینڈ میں بھی 300 رنزعام سی بات ہے اور اکثر یہ ہدف کامیابی سے حاصل ہونے لگا ہے.
اصل مسئلہ ٹیم کے انتخاب کا ہے. اظہر علی پر پہلے بھی بات ہوتی ہے، اب بھی انہی سے بات شروع ہوگی. ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ٹیم میں بطور کپتان جگہ ان کی پکی ہے مگر وہ سٹرائیک روٹیٹ نہیں کرتے. بہت سے لوگ انہیں مصباح کی طرح کہتے ہیں مگر مصباح اور اظہر میں بہت فرق ہے. مصباح ایک مکمل بلے باز تھے، وہ محتاط بلے بازی ضرور کرتے تھے مگر ان کے پاس سارے شاٹس موجود تھے، جب چاہتے بڑی آسانی سے چھکا لگا لیتے تھے اور اظہر میں سب سے بڑی کمی ہی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی بڑا شاٹ لگاتے ہوئے آرام دہ محسوس نہیں ہوتے. ان کے سلو سٹارٹر ہونے کا مسئلہ تو ہے ہی، اس سے زیادہ مگر یہ کہ لمبی باری میں بھی وہ گیندوں کا فرق نہیں نکال سکتے. اس کا مظاہرہ انہوں نے پہلے ون ڈے میں بھی کیا تقریبا 75-80 گیندوں پر 50 مکمل کرنے کے بعد بھی وہ بڑی شاٹ لگانے کے چکر میں بہت مضحکہ خیز انداز میں بلا گھماتے نظر آئے.
شرجیل خان کی بیٹنگ میں اتنی خامیاں ہیں کہ کوئی بھی بڑی ٹیم انہیں دو چار شاٹس میں پکڑ سکتی ہے. فٹ ورک اور وزن ان کا بہت بڑا مسئلہ ہے، پھر شاٹ سلیکشن بھی ان کی بہت بری ہے. ٹاپ آرڈر میں یہ چیزیں کسی ٹیم کو وارا نہیں کھاتیں. ایک اور مسئلہ بیٹنگ آرڈر کا ہے. شعیب ملک کو چھٹے نمبر پر بھیجنے کی تک سمجھ نہیں آتی. ملک کا سب کو پتہ ہے کہ وہ ٹائم لیتے ہیں، آتے ہی بڑے شاٹس نہیں لگا سکتے مگر ان کو نچلے نمبروں پر بطور فنشر بھیجا جارہا ہے جو کہ ہماری ٹیم مینیجمنٹ کی ناقص حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے. ان کی رننگ بٹوین دی وکٹ اچھی ہے، اس لیے مڈل اوورز میں وہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں. ملک کا انگلینڈ میں ریکارڈ البتہ بہت برا ہے، 17 اننگز میں صرف 168 رنز اور وہ بھی 9.88 کی ایوریج سے جس میں 28 رنز ان کا بیسٹ سکور ہے. اصولا تو اگر ان سے بائولنگ نہیں کروانی تو ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی.
شکر ہے کہ سرفراز احمد کو اوپری نمبرز پر بھیجا جا رہا ہے جس کے فوائد بھی سامنے آرہے ہیں مگر ضروری ہے کہ انہیں ایک مستقل نمبر دے دیا جائے. بطور اوپنر انہیں کھلا کر اگر رضوان کو کھلا لیا جائے تو نچلے نمبرز پر ایک ہٹر کی کمی بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے. (سرفراز بطور اوپنر 9، تیسرے اور چوتھے نمبر پر7، پانچویں نمبر پر 3 اور چھٹے یا اس سے نیچے کے نمبر پر27 دفعہ بیٹنگ کر چکے ہیں). یہ کسی بھی کھلاڑی کے ساتھ زیادتی ہے کہ جب دل کرے اسے کہیں اٹھو اور بیٹنگ کرنے چلے جائو.
محمد نواز کو دومیچز میں شاندار کارکردگی کے باجود باہر بٹھا دینا سمجھ سے بالاتر ہے. اس طرح کے برتاؤ سے کھلاڑی کیسے تیار ہوگا؟ نواز پر محنت کر لی جائے تو مستقبل کا بہترین بیٹنگ آل رائونڈر ہمیں مل جائے گا. لڑکا دلیر بھی ہے اور تکنیکی طور پر بھی مضبوط ہے.
یاسرشاہ ون ڈے کا کامیاب بائولر نہیں ہے کل پھر یہ بات ثابت ہوگئی. زمبابوے کے خلاف میچز نکال دیے جائیں تو یاسر نے 10 میچز میں 5.7 کی ہائی اکانومی سے صرف 8 وکٹیں حاصل کی ہیں. کل بھی موصوف نے 6.52 کی بھاری اوسط سے مار کھائی ہے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہیں کر پائے. یہاں بری کپتانی کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ 7 اوورز میں 38 رنز دے کر دو اہم وکٹیں حاصل کرنے والے عماد وسیم سے بعد میں بائولنگ ہی نہیں کروائی گئی اور یاسر شاہ بائولنگ کرتے رہے.
بابراعظم بہترین ہیں مگر دو میچز میں ان کی بلے بازی دیکھ کر لگتا ہے کہ ان پر اپنے کزن عمر اکمل کا خاصا اثر ہے. یہ چیز بہت نقصان دہ ہے، انہیں اس سے پرہیز کرنا ہوگا. ایگریشن اچھی چیز ہے مگر شاٹ سلیکشن بھی اہم ہے. آپ کو ہر حال میں وکٹ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے. پاکستان کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا بہت اہم ہے. اگر شرجیل کی چھٹی (مسلسل کھلانے کا جوا کھیلنا ہے تو آپ کی مرضی) کرکے ان کی جگہ رضوان کو کھلا لیا جائے تو سرفراز بڑے آرام سے ون ڈائون آسکتے ہیں جبکہ ملک بھی پانچویں نمبر پر کھیل سکیں گے اور چھٹے پر رضوان ہو جائیں گے. محمد نواز کو یاسرشاہ کی جگہ ٹیم میں لیا جاسکتا ہے. اس سے بیٹنگ آٹھویں نمبر تک ہو سکتی ہے اور مسائل میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے.
اس ٹیم میں عامر یامین یا حماد اعظم جیسا فاسٹ بائولنگ آل رائونڈر بہت ضروری ہے. عامر یامین اور حماد دونوں کو مناسب مواقع دیے بغیر ٹیم سے نکال دیا گیا. اسی لیے آج ہم آخری اوورز میں اچھے ہٹرز سے محروم ہیں. گزرے سات سال میں پاکستان ٹیم اپنے 45 فیصد ون ڈے میچز میں آل آئوٹ ہوچکی ہے جو کہ ٹیسٹ نیشنز میں زمبابوے کے بعد سب سے زیادہ بار ہے. اس سے ہماری بیٹنگ کا حساب لگا لیں. گزشتہ 11 باہمی مقابلوں میں سے10 انگلینڈ ہمیں ہرا چکا ہے.
اب بھی وقت ہے کہ ہم سوچیں اور فیصلہ کریں. ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ حفیظ اور اظہر علی جیسے کھلاڑی مسلسل ناکام ہو کر بھی کھیلتے رہتے ہیں جبکہ نئے لڑکوں کو اچھی کارکردگی کے باوجود ٹیم سے نکال دیا جاتا ہے. اگر تو ہمیں اپنی رینکنگ بہتر کرنا ہے تو کپتان سمیت موجودہ ٹیم پر نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ پھر رینکنگ میں اس سے نیچے بھی جگہ موجود ہے
تکنیک اور سٹیٹسکس کے ساتھ عمدہ تجزیہ... چونکہ محسن حدید کی کوئی کاوش پہلی بار پڑھ رہا ہوں اس لئےاس قدر عمدہ تجزیہ پر محسن حدید کو مبارکباد.