ہوم << صحبت صلحاء کیوں ضروری ہے؟ مدثر ریاض اعوان

صحبت صلحاء کیوں ضروری ہے؟ مدثر ریاض اعوان

مدثر ریاض اعوان اللہ عز وجل نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول بنا کر بھیجا اور دین اسلام کو مکمل دین قرار دیا۔ دین اسلام ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں ہدایت و رہنمائی دیتا ہے۔ شریعت مطہرہ ان تمام احکامات کا نام ہے جو اللہ تعالی نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے۔ یہ تمام احکامات اوامر و نواہی پر مشتمل ہیں، یعنی کچھ کاموں کو کرنے کا اور کچھ کاموں سے اجتناب کا حکم دیا گیا۔ قرآن وحدیث میں وہ تمام احکامات بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔
افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ یعنی وہ احکامات جو اللہ عزوجل نے آپ پر نازل کیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام احکامات کا عملی نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام احکامات کا عملا نفاذ کیا اور اپنے اصحاب کا تزکیہ کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔
شریعت و طریقت دو علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔ ہر دور میں محقق صوفیاء اور مشائخ نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی ہے کہ لوگوں کا تزکیہ اس انداز میں کیا جائے کہ شریعت کے احکامات پر عمل ان کے لیے آسان ہو جائے۔ اسی محنت و کوشش کی وجہ سے سلاسل تصوف کا آغاز ہوا اور آج تک لوگ ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔
انسان یا تو ماحول کو تبدیل کرتا ہے یا پھر ماحول کا اثر لے کر خود تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسان کی پختہ عادات کو تبدیل کرنا اور ان کو ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ہمارے اہل طریقت مشائخ کی محنت اسی اصول پر ہے کہ کسی بھی مسلمان کی ان تمام عادات کو ختم کیا جائے جو شریعت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اسی کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔ اس کو مثالوں سے سمجھتے ہیں. شریعت میں چغل خوری گناہ ہے۔ اب اگر ایک شخص کافی عرصے سے اس گناہ میں مبتلا ہے تو اس کی عادت پختہ ہو گئی ہے اور وہ اس قبیح فعل کو چھوڑ نہیں پا رہا تو جب یہ شخص کسی صاحب نظر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کی حالت کو دیکھ کر اس کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں اور صحبت صلحاء اختیار کرنے کا بھی کہتے ہیں تاکہ وہ اس عادت کی پختگی کو توڑ کر شریعت پر عمل کر سکے۔ اسی طرح اگر ایک شخص بدنظری میں مبتلا ہے اور اپنی اس عادت کو چھوڑ نہیں پا رہا تو اس کو خدا کی عظمت کا درس دیا جاتا ہے اور کچھ عرصے کے لیے ان تمام ذرائع کو منقطع کر دیا جاتا ہے جس سے ذرا برابر بھی اس گناہ میں مبتلا ہونے کا شائبہ ہو۔
خلاصہ یہی ہے کہ شریعت مطہرہ پر حتی الامکان عمل کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر ہماری کسی عادت کی پختگی شریعت پر عمل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو جلد از جلد صحبت صلحاء اختیار کی جائے تاکہ اس کا سدباب ہو سکے۔

Comments

Click here to post a comment