ہوم << علماء ومشائخ اور مفتیان کا دنیا سے فرار - میاں عتیق الرحمن

علماء ومشائخ اور مفتیان کا دنیا سے فرار - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن قوم کا سب سے زیادہ محترم طبقہ علماء ومشائخ اور مفتیان کرام کا ہے مگر اس جماعت کا حال یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کی موت وحیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ قوم کا جاہل سے جاہل اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقہ بھی دنیا کے حالات اور مسلمانوں کے قومی زوالوں کی جتنی خبر رکھتا ہے اتنی بھی ہمارے دین و دنیا کے پیشواؤں کی اکثریت کو معلوم نہیں۔ دنیا میں کیا انقلابات رونما ہو رہے ہیں، مسلمانان عالم پر کیا بیت رہی ہے، کیسے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے، خود پاکستان میں روز بروز ان کا کیا حال ہو رہا ہے، یہ تمام باتیں اس مقدس گروہ کے نزدیک دنیا داری کی باتیں ہیں جن کا وہم کرنا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں ہے۔
مسلمانوں کی کی قومی و ملکی اور ملی حالت کی فکر کرنا، اور اس کے لیے لوگوں میں تحرک پیدا کرنا، علماء و مشائخ اور مفتیان عظام میں سے بہت سوں کے ہاں نیچریت میں داخل ہے جس پر انھی کی طرف سے تلقین شدید ہے کہ ہر متقی اور پرہیزگار شخص کو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ عام طور پر اس محترم ترین جماعت کا خیال عظیم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کام صرف دین کی خدمت ہے، اور دین کا مطلب ہے صرف نماز، روزے کے مسائل بتلا دیے جائیں اور معیار اسلام داڑھی کو قرار دے کر باقیوں کو جہنم پہنچا دیا جائے یا اگر کوئی مسلمان ہو اسے باجماعت کافر کہہ کر دائرہ اسلام سے نکالنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا جائے، یا شاگردوں کو چند کتابیں پڑھا دی جائیں، اس دنیا میں بس اسی پر اکتفا کافی ہے۔ باقی رہی مسلمانوں کی قومی زندگی تو یہ سوچنا دنیا داری ہے، اس لیے محترم علماء و مشائخ اور مفتیان عظام کا اس سے کیا واسطہ، اگر کوئی غلطی سے اس طرف آ نکلے تو وہ بھی یہ کہہ کر اپنے معتقدین کے دلوں کو تسکین دیتا نظر آتا ہے کہ اب ہماری تمھاری کوشش سے کیا ہوسکتا ہے، اب قیامت قریب ہے اور یہ سب اسی کی نشانیاں ہیں۔
قابل احترام گروہ کی زبانوں سے اکثر سنا جاتا ہے کہ دین اور دنیا کی کوئی خوبی ایسی نہیں جو قرآن شریف اور نبی کریم ﷺ میں موجود نہ ہو، واقعتا یہ حقیقت ہے مگر ان کے عمل سے لگتا یوں ہے کہ یہ محض خوش اعتقادی ہے جو رسماً زبان سے ادا کرد ی جاتی ہے اور حقیقت میں نہ تو کسی کا اس پر یقین ہے اور نہ کسی میں اس کی طاقت ہے کہ وہ اسے عملاً ثابت کرکے دکھا دے۔ کچھ لوگ واقعتا سچے دل سے ایسا جانتے بھی ہیں مگر وہ بھی اس خیال باطل سے اپنے دل کو بہلا تے ہیں کہ گو قرآن اور نبی کریمﷺ کے فرمان میں سب کچھ ہے مگر اسے بڑے بڑے اماموں کی امامت اور ولیوں کی کرامت کے بغیر جانا نہیں جا سکتا اور اس کے بغیر اگر کوئی مسلمان غور کا کشت کر ے گا تو وہ صرف قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرمان سے گمراہی لے گا، ہدایت نہیں۔ نعوذ باللہ من ذلک
استغراقی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ سب باتیں کینہ و حسد اور بغض کے پیرائے میں نہیں لکھی گئیں بلکہ اصلاح کی غرض سے کہی گئی ہیں۔ اس تحریر میں انداز مفتیان و مشائخ میں مکروہات کی نشاندہی میں یک گونہ تشدد نمایاں نظر آئے گا۔ جس کا مقصد طلب علم و نظر میں جدت کا تحرک اور عمل میں تسلسل کی ہلچل پیدا کرنا ہے اور خاکسار کی جسارت یہ بھی ہے کہ برائی کا منظرنامہ جس قدر بھیانک اور مکروہ دکھایا جا سکے عین مطلوب اور اچھائی اور کا سراپا جس قدر بھی دل فریب کھینچا جا سکے عین مقصود ہوتا ہے، لہذایہاں ارباب بحث و نظر کی طرح مقیاس و میزان کو ہاتھ میں نہیں رکھا ہے اور صرف حسن پرست دل پہلو میں ہے. اگر غلو اغراق اسی حسن پرستی کا نام ہے تو اس سے نہ انکار ہے اور نہ گریز۔ واللہ اعلم

Comments

Click here to post a comment