حاجی صاحب کا ملازم ان کے لیے نشر و اشاعت کا کام بھی بڑی ذمہ داری سے انجام دیا کرتا تھا. اس نے جیسے کیسے حاجی صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گاؤں میں بیش قیمت بیل خریدنے کی خبر پہنچا دی. حاجی صاحب نے تمام لوگوں کو اپنا منتظر پایا، بصیرت سے کام لیتے ہوئے اور ملازم کی تعریف کی اور نقد انعام بھی دیا. وہاں پر جمع غریب لوگوں کو دیکھ کر حاجی صاحب نے کسی قدر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ پاک نے ان کو دولت جیسی عظیم الشان نعمت عطا فرمائی ہے. ادھر موجود غریب لوگوں نے حاجی صاحب کی خوب تعریف کی اور کسی قدر للچائی ہوئی نظروں سے بیل کی طرف دیکھنے لگے. حاجی صاحب کی بصیرت نے بھانپ لیا اور ہمیشہ کی طرح مانگنے کو غیر معاشرتی طریقہ ٹھہرایا اور محنت کی تلقین کی، اور صبر پر اللہ کے انعامات کا درس دیا اور بتایا کہ ان کی دولت بھی صبر ہی کا پھل ہے. کوئی اپنی بیٹی بیاہنے کے لیے حاجت کر رہا تھا اور کوئی بوڑھی ماں کی دوا کے لیے مگر جوں کے توں حاجی صاحب اسے خدائی قانون اور آزمائش ٹھہراتے رہے. ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی حاجی صاحب تو جیت گئے مگر انسانیت ایک دفعہ پھر بیوہ کا روپ دھار کر کہیں ویرانے میں جا آباد ہوئی.
تبصرہ لکھیے