ہوم << لہو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی - قراۃالعین کامران

لہو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی - قراۃالعین کامران

صرف دو نمبر سے رہ گیا.
مجھے آتا تو تھا لیکن بہت لمباsum تھااس لیے چھوڑدیا.
میں اس سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا میری بات سمجھنے کی کوشش کریں.
یہ چند جملے ہیں جو نتیجہ آنے پر باز پرس کرنے کی صورت میں بچوں سے سننے کو ملتے ہیں۔ ایک لطیفہ جو کئی مرتبہ سن اور پڑھ لینے کے بعد کافی گھسا پٹا معلوم ہوتا ہے لیکن نوجوان نسل کا المیہ بیان کرتا ہے۔ بہن 89% آنے پر بےتحاشا آنسو بہا رہی ہوتی ہے، بھائی فرماتے ہیں کہ خدا کا خوف کرو، اتنی پرسنٹیج میں تو دو لڑکے پاس ہو جاتے ہیں۔ صنف نازک نمبرز کی دوڑ میں سرپٹ دوڑی چلی جا رہی ہیں جبکہ لڑکے پڑھائی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ان کے پاس وقت گزارنے کو پہلے کرکٹ اور فٹبال ہوا کرتے تھے، اور اب وہ یہ سب کھیل موبائل میں کھیل لیتے ہیں۔ صرف 8ball pool ہی کھیلنے کے لیے فیملی گروپس کے نام سے واٹس ایپ گروپ بنے ہیں جہاں آدھی رات تک ہر کوئی اپنی سہولت کے مطابق کھیل کی بازی لگا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انسٹا گرام، فیس بک (والدین کا حسن ظن) الا بلا انھیں پڑھائی سے بےنیاز رکھتا ہے۔ کمبائن اسٹڈی کے نام پہ دوست مل کر کیا کچھ کرتے ہوں گے، ایک خاتون خانہ ہونے کی حیثیت سے واضح طور پر تو نہیں معلوم لیکن امتحانی نتائج یہ مژدہ سناتے ہیں کہ کمبائن اسٹڈی کے علاوہ سب کچھ ہی ہوتا ہوگا.
نمبر کم یا زیادہ آنا اصل مسئلہ نہیں بلکہ قابلیت اور مہارت کا فقدان لہو رلاتا ہے۔ اسائنمنٹ اور پروجیکٹ جو صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا ایک ذریعہ ہے، اس کا حال بھی سب کے سامنے ہے. اسائنمنٹ میں کاپی پیسٹ اور پروجیکٹ کے نام پہ ایک ہی پروجیکٹ کزنز اور دوست مختلف یونیورسٹیوں میں اپنے نام سے جمع کرا دینے کو عقلمندی شمار کرتے ہیں، وقت اور پیسے کی بچت، آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ غلطی کی طرف اشارہ کرنے والوں کو کسی اور دنیا کا باسی سمجھتے ہیں، ایسی حیران نظروں سے تکتے ہیں کہ کوئی مریخ سے آئی مخلوق کو بھی کیا دیکھےگا۔ مل کر کھانے میں بھلائی ہے، کوئی اپنی چیز ایسے ہی نہیں تھمادیتا کل کو اسے ہم سے کام پڑے گا۔ فی زمانہ contacts کام آتے ہیں سو contacts بہت ہیں۔ یہ رجحان میرٹ کا کس طرح نقصان کر رہا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے.
اس مرتبہ میٹرک میں حمزہ نامی طالب علم کی پوزیشن آنا حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اس کے علاوہ دلیل ڈاٹ پی کے پر نو جوان لکھاریوں کو پڑھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ ابھی بانجھ نہیں ہوا ہے. ( غالب گمان یہی ہے کہ دلیل ڈاٹ پی کے پر شائع ہونا کسی contact کا ثمر نہیں). کوئی صاحب علم و عمل اپنی رائے سے نوازے کہ کس طرح تن آسانی سے نوجوان نسل کو (شعبہ ابلاغ سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بھی) بچایا جا سکتا ہے۔ اقبال کا شاہین بنیے، کامیابی کیسے حاصل کریں؟ جیسی ورکشاپ میں تو یہ رت جگوں کے باعث اونگھتے نظر آتے ہیں.

Comments

Click here to post a comment