کراچی میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے پورا ملک حیران و پریشان ہے. سندھ کے شہری علاقے کی سب سے بڑی کہلائے جانے والی جماعت تاریخی دوراہے پر کھڑی ہے. ایک طرف اس جماعت کا بانی قائد ہے، جس کے حوالے سے ان کا نظریہ ہے کہ ’’منزل نہیں راہنما چاہیے.‘‘جس کی وفاداری سے انحراف کو اس جماعت کا آئین غداری سے تعبیر کرتا ہے اور اس غدار کے حوالے سے موت کے حقدار کا فیصلہ نعروں سے بڑھ کر عملی طور پرنافذ العمل ہوتا چلا آیا ہے. اب کراچی میں موجود اس جماعت کے ڈپٹی کنوینر اور سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اپنے قائد کےارشادات کو کسی ذہنی کیفیت سے تعبیر کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ جب تک قائد کی ذہنی کیفیت درست نہیں ہو جاتی، اب فیصلے پاکستان میں ہوں گے. ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں ’سپیس‘ دی جائے اور ہم پر اعتبار کیا جائے. ادھر متحدہ کےلندن سیکرٹریٹ کا دعوٰی ہے کہ کچھ نہیں بدلا، ہر فیصلے کی توثیق قائد تحریک سے لینا ضروری ہے. ادھر قائد تحریک پاکستان مردہ باد کے نعروں سے آگے بڑھ کر امریکہ، انڈیا، برطانیہ، اسرائیل، ایران اور افغانستان کو پاکستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے خود بھی اس میں شرکت کے عزم کا اظہار کرتے ہیں.
اب یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ الطاف حسین کی ہرزہ سرائیاں، کراچی میں بوری بند لاشوں، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور ہڑتالوں کی تاریخ کیا محض کچھ عرصہ پہلے رونما ہونے والے واقعات ہیں یا ان کی تاریخ 30 سال پرانی ہے؟ کوئی انڈیا میں پاکستان بننے کو تاریخ کا سب سے بڑا بلنڈر کہنے والا الطاف حسین کا بیان بھول سکتا ہے؟ کوئی ڈاکٹر ذولفقار مرزا کی سر پر قرآن اٹھا کر کی جانے والی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کہ ’’الطاف حسین نے انھیں کہا تھا کہ برطا نیہ اور امریکہ نے پاکستان توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس میں میری جماعت انکا ساتھ دے گی‘‘بھول سکتا ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ اس بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل میں جب ایک بوڑھا اور لنگڑا گھوڑا اپنا وقت پورا کر چکا ہے، نئے تازہ دم گھوڑے میدان میں اتارنے کی سازش کی جا رہی ہو؟ کیا کوئی بھول سکتا ہے کہ مہاجر نعرے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی جماعت کس طرح کراچی میں دینی جماعتوں اور پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے تخلیق کی گئی تھی؟ پھر کس طرح ایک اور آمر نے اسے اپنے دور اقتدار میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے کے لیے کھلی چھوٹ دی (اس بات کا ذکر کراچی کے نو منتخب میئر اور اس واقعے کے مرکزی ملزم نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا).
خدارا ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرنا ہوگا، کبھی اپنے تئیں خاص اہداف حاصل کر نے کے لیے ایک کی سر پرستی اور پھر جب وہ ایک عفریت کا روپ دھار لے تو دوسرے کے سر پر ہاتھ رکھ دینے والے فارمولے نے اس قوم کو کچھ نہیں دیا. ساتھ ہی ساتھ ٹک ٹک دیدم کی عملی تفسیر بنی سیاسی قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، وقت اب قیامت کی چال چل رہا ہے. ہمارے ازلی دشمن نے اپنے سارے پتے عریاں کردیے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی عالمی جگ ہنسائی کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچ رہی ہے. اب یہ آلو پیاز کی تجارت اور آموں کے تحفوں کی سیاست نہیں چلے گی. جب تک پاکستان میں دہشت گردوں کی سر پرستی کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آ غاز نہیں کیا جاتا، دشمن کو دشمن کی زبان میں ہی کم از کم سفارتی محاذ پر جواب دیا جائے. ہم سے ہر وقت ڈو مور کا مطالبہ کرنے والی عالمی قوتوں تک بھی یہ پیغام پہنچایا جائے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کی حکمت عملی برداشت نہیں کی جائے گی. کیسے ایک ملک کا شہری دوسرے ملک میں فون کرکے کھلے عام انتشار پھیلاتا پھر رہا ہے؟ اب برطانیہ کو اپنی یہ شرمناک پالیسی فوراًبند کرنا ہوگی,، ورنہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس مسئلے کو اٹھائے.
ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت کو بھی چاہیے کہ اگر عوامی خواہشات کے برعکس ملک کی مقتدر قوتیں اسے آخری موقع دینے کے لیے تیار ہیں تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے خونی اور جنونی قائد کے گن گانا چھوڑ دیں، حقیقتاً اس سے فاصلہ اختیار کریں، اپنے ماضی کی گھناؤنی تاریخ پر قوم سے معافی مانگیں اور خلوص دل سے اپنے حاصل کردہ حق نمائندگی کا استعمال انتشار اور ملک دشمنی کے بجائےسندھ کے شہری علاقوں کی ترقی اور اس ملک کی خوشحالی کے لیے کریں. علاوہ ازیں اپنی صفوں میں چھپےجرائم پیشہ عناصرکی فوری بیخ کنی میں ریاستی اداروں سے مکمل اور پر جوش تعاون کریں. اب اس ملک کے عوام مزید کسی سازش یا انتشار کو برداشت کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں.
بہت عمدہ تحریر ہے. آپ کی سیاسی بصیرت اور حالات حاضرہ پر نظر قابلِ ستائش ہے. امید کرتے ہیں کہ آپ کا یہ اصلاحی جائزہ عوم الناس 030-066-54001