ہوم << ہائے وہ سیاہی کی بوتل‌ - مدیحی عدن

ہائے وہ سیاہی کی بوتل‌ - مدیحی عدن

مدیحی عدن میں کوئی چھ سات سال کی تھی تو ایک شام تایا کی بیٹی جنہیں میں باجی بولتی تھی، نے دکان سے سیاہی لانے کو بولا۔ اس زمانے میں انک پین ہوا کرتے تھے جن میں نیلے یا کالے رنگ کی سیاہی بھری جاتی تھی اور سیاہی دوات یا چھوٹے پیکٹ میں آتی تھی۔ میں سیاہی کا پیکٹ لے کے باجی کے پاس آئی تو انھیں دوات کی شیشی والی سیاہی چاہیے تھی، پیکٹ میں نہیں۔ انھیں پیکٹ دیکھ کے غصہ آیا اور پوچھا کہ یہ تمہیں کس نے دیا؟ میں نے جواب دیا کہ دکاندار نے۔
انھوں نے کہا جائو، یہ پیکٹ دکان دار کے منہ پہ مار کے آئو، اور واپس کر کے سیاہی کی بوتل لے کر آنا۔
خوش قسمتی سے دکاندار میرے سے کوئی تین چار سال ہی بڑا بھائی تھا۔ میں اس کی دکان پر گئی اور پیکٹ اس کے منہ پہ مارتے ساتھ ہی کہا کہ میری باجی نے کہا ہے کہ یہ پیکٹ آپ کے منہ پہ ماروں اور سیاہی کی بوتل لے کے آئوں۔ دکاندار کو ہنسی آگئی۔ اس نے ہنستے ہنستے مجھے بوتل دے دی۔
آ کر باجی کو معصومیت سے بتایا کہ میں نے پیکٹ اس بھائی کے منہ پہ مارا اور واپس کر کے بوتل لے آئی۔
باجی نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا :کیا؟؟؟
میں نے پھر وہی بات دہرائی۔
باجی: وہ تو میں نے غصے میں کہا تھا، میرا مطلب اصل میں یہ نہیں تھا۔
میں سوچ میں پڑ گئی کہ یہ غصے میں کہنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
باجی: تو دکاندار نے تمہیں کچھ کہا نہیں؟
میں: نہیں، بس وہ ہنستا جا رہا تھا۔
زندگی میں کچھ باتیں بہت دیر بعد جا کے سمجھ آتی ہیں کہ ہر بات کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو ایک سادہ لوح انسان کا ذہن سمجھ لیتا ہے۔ بچوں کے چہرے ہی معصوم نہیں ہوتے، دل اس سے بھی کہیں زیادہ معصوم اور سادے ہوتے ہیں۔ چالاکیاں، دغا بازیاں، جھوٹ، یہ سب تو وہ بچہ اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی چیزیں اس کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں، اور فطرت کو بدلا نہیں جا سکتا۔
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے خطرناک عمر ایک سے تین سال کی ہوتی ہے۔ اس دوران بچے دنیا کی ہر چیز کی تسخیر کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے ہر چیز نئی ہوتی ہے، اس لیے وہ بہت زیادہ متجسس ہوتے ہیں۔ اس عمر میں بچہ ہر کسی کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ کیسے کھاتے ہیں؟ کیسے باتیں کرتے ہیں؟ کیا باتیں کرتے ہیں؟ سب کچھ بچہ آپ سے سیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ آپ جو بچے کو بنانا چاہیں، بچہ وہ ہی بن جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
حیران کن بات ہے کہ آج کی ریسرچ اور ماہرین نفسیات جو باتیں ثابت کرتے ہیں، رسول اللہ ؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے بڑے سادہ لفظوں میں ان کی حقیقت بیان کر دی تھی۔ یہی پیدا ہونے والا بچہ کل کو جب بالغ ہو گا تو اپنے ماں باپ کے دین پہ ہوگا۔
”بچے تو پودے ہیں، کھاد ڈالی جائے، پانی دیا جائے اور پودے کا خاص خیال رکھا جائے تو وہ پودا پھلتا پھولتا ہے۔“