ہوم << کراچی، پاکستان میں دور الطاف ختم ہوا - آفتاب اعوان

کراچی، پاکستان میں دور الطاف ختم ہوا - آفتاب اعوان

آفتاب اعوان ایم کیوایم کی پاکستانی قیادت نے آخرکار یہ اعلان کر دیا کہ آج سے الطاف حسین کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں اور ایم کیو ایم کے نئے قائد فاروق ستار ہوں گے. اب اس قدم پر تجزیے ہوں گے، بخیے ادھیڑے جائیں گے، بعض لوگ اس قدم کو محض ایک ڈرامہ قرار دیں گے، کچھ اس قدم کی ناگزیریت پر اظہار خیال کریں گے، اور کچھ حسب معمول اسٹیبلشمنٹ کو بیچ میں گھسیٹ لائیں گے. مگر حقیقت یہی ہے کہ چاہے یہ قدم ڈرامہ ہی ہو مگر آج کے بعد الطاف حسین کا پاکستان کی سیاست میں کردار رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا جائے گا. اب اس ڈھلوان سے واحد راستہ نیچے کی طرف ہی ہے، اوپر کا کوئی راستہ نہیں. ایم کیوایم کی پاکستانی قیادت بھی کافی عرصہ ہوا اس بات کا احساس کر چکی تھی کہ الطاف حسین بطور قائد اپنی ایکسپائری تاریخ سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں اور کارکنوں میں اپنی بے پناہ محبت اور عقیدت کے باوجود ایم کیو ایم کے لیے بحیثیت ایک سیاسی جماعت وہ ایک ناگوار بوجھ بن چکے ہیں اور ان کی کل کی تقریر اور احکامات نے ان کے پاکستانی ساتھیوں کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ الطاف حسین کو اس قدم پر راضی کر لیں کہ جس کے خواہش مند وہ کافی عرصے سے تھے. کراچی اور پاکستان میں اب دور الطاف کا خاتمہ ہوا.
یہ سوال البتہ اہم ہے کہ اس دور الطاف میں کراچی نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی لیڈر کو کارکنوں کی ایسی بے لوث محبت، عقیدت اور جانثاری نصیب ہوئی ہو جتنی کہ الطاف حسین کو ملی. ایک اشارے پر جان لٹا دینے کا جذبہ، ایک لفظ پر شہر کو آگ لگا دینے کی ہمت اور قائد کی رضامندی کی خاطر اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دینے کی صلاحیت: یہ صرف ایم کیوایم کے کارکن کا ہی خاصہ تھا اور ہے. سچ تو یہ ہے کہ کارکنوں کی یہ جنونی محبت تو بھٹو اور بے نظیر جیسے لیڈروں کو بھی نصیب نہ ہوئی اور نواز شریف جیسے لیڈر تو تصور میں بھی ایسی محبت اور عقیت کا سوچ نہیں سکتے. کسی ویژنری لیڈر کے ہاتھ میں ایسی طاقت کی لگام ہوتی تو نہ صرف اس کی قوم بلکہ اس کے شہروں کی حالت میں ایسی ڈرامائی تبدیلی آتی کہ وہ باقی اقوام اور علاقوں کے لیے ایک مثال بن جاتی، مگر افسوس کہ اس عظیم موقع کو ہوس اقتدار، ہوس زر اور وقتی اور ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا. ایک پوری نسل تعصب کا شکار ہو کر قومی دھارے سے الگ ہو کر تاریک راہوں میں گم ہو گئی. ایک پوری نسل نفرتوں کا شکار ہو کر گم کردہ راہ ہوگئی.
کراچی کے محروم نوجوانوں کو الطاف حسین کی شکل میں وہ لیڈر دکھائی دیا تھا جس کی وہ لیاقت علی خان مرحوم کی شہادت کے بعد سے تلاش میں تھے. جب الطاف حسین منظرعام پر آئے تو کراچی کے عوام کو یوں محسوس ہوا کہ جس مسیحا کی ان کو تلاش تھی وہ آخر آ گیا، جو غاصب قوتوں سے ان کے حقوق چھین کر واپس ان کے حوالے کرے گا. مگر افسوس آج یا آج سے کچھ عرصے بعد جب وہ مڑ کر دیکھیں گے تو ان کو راستے میں بکھرے ہوئے کانٹے، پتھر اور اپنے پاؤں کے چھالوں سے بہا ہوا خون تو دکھائی دے گا مگر سامنے منزل کا کوئی نشان نہیں نظر نہیں آئےگا. ان کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ذاتی سیاسی مقاصد کا حصول ہو یا روشنیوں کے شہر کراچی پر خوف کی سیاہ چادر ڈالنے کا سلسلہ، کراچی کے عوام کے لیے محبت کا یہ سودا گھاٹے کا کاروبار ہی نکلا.
افسوس کہ تیس سال کا یہ سفر رائیگاں ہی نہیں ہوا بلکہ اپنے ساتھ سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں، لاکھوں خواب اور کروڑوں کا اعتبار بھی لے گیا. اب کس رہنما پر اعتبار آئے گا؟ اب کس قائد سے امید کی ڈور بندھے گی اور کس پیشوا سے اقتداء کا رشتہ دوبارہ جڑے گا؟ صد حیف اس نسل پر جسے راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے.