بس صرف سسکیاں اس کے کانوں میں سنائی دے رہی تھیں۔ منظر اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔ اسے اپنی منزل پر پہچنا تھا۔ جس جگہ سے وہ گزر رہا تھا، وہ سنسان تھی، ہر طرف سناٹا، خاموشی اتنی کہ اپنے ہی سانسوں کی آواز سنائی دینے، اور اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالو تو اپنا وجود خوف کے مارے پسینے میں بھیگتا ہوا محسوس ہونے لگے، جسم میں ایک سنساہٹ سی دوڑتی محسوس ہو۔ وہ تو آنکھیں بند کیے اللہ کا نام ورد زباں کیے چل رہا تھا۔ اور اب ایک نئی مصیبت، یہ سسکیوں کی آواز کس کی ہے؟ وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنا چاہتا تھا، لیکن آنکھوں کے پپوٹے اپنی سوجن کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ افف ف ف ف یہ دہشت ہے یا وحشت، اس نے بے بسی سے اپنے ہی لب کاٹ ڈال ۔ اس کی رفتار میں فرق نہیں آیا تھا۔
رک جائو بیٹا۔ اب بھی چونک جانے کی باری اسی کی تھی۔ آواز میں چھپا طلسم اسے پوری طرح اپنے سحر میں گرفتار کر چکا تھا۔ اب اس کے قدم منجمد ہو رہے تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جگہ رک گیا تھا، دھیرے دھیرے اپنی تھوڑی سی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔
روشنی سے تھوڑی دیر کو آنکھیں چندھیائیں مگر اب سامنے کا منظر واضح تھا ۔اسے لگا کہ وہ دنیا کے نقشے پہ عین اس خطہ ارض پہ کھڑا تھا جسے لوگ پاکستان کہتے ہیں، اس کا اپنا پیارا پاکستان۔
وہ منظر کتنا دلخراش تھا مگر کربناک چیخیں اس کے لبوں پہ دم توڑ رہی تھی۔ اور وہ صرف حسرت و یاس کی تصویر بنا صرف دیکھ رہا تھا
کٹے پھٹے سے جو لاشے ہیں میری دھرتی کے
مجھے بتاتے ہیں مہنگی ہے کتنی آزادی
اب سمجھ میں آرہاتھا کہ وہ سسکیاں اسے کیوں سنائی دے رہی تھیں؟
وہ سب مناظر اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں تھے۔ آزادی کا حصول اتنا سہل کب تھا اور اب آزادی کے حصول کو برقرار رکھنا کتنا کٹھن اور دشوار۔
وہی ٹوپی، وہی لباس، وہی دھان پان سی شخصیت لیکن پختہ عزائم کی مالک، اسی کی طرف آرہی تھی۔ وہ ایک لمحے کو مبہوت انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھےگیا، دوسرے لمحے خالص فوجی انداز میں انہیں سلیوٹ پیش کر رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹریننگ میں یہی سیکھا تھا۔ سامنے بانی پاکستان اس کے سلام کا جواب اپنے مخصوص انداز میں دے رہے تھے۔
سر آپ اور یہاں؟ وہ قائد سے مخاطب تھا۔
ویلڈن مائی بوائے۔ ویلڈن۔ انہوں نے اس کا کندھا تھپتھایا۔ دشمن کو جس طرح تم نے ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ تم نے جس طرح اس کے گھر میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مقابلہ کیا۔ مجھے فخر ہے تم پر، اور پور ی افواج پاکستان پر۔ قائد اپنا وہی خطاب دہرا رہے تھے جو انہوں نے افواج پاکستان سے کیا تھا۔ وہ مزید کہہ رہے تھے۔
’’بیٹا! خدا نے ہمیں یہ سنہری موقع عطا کیا ہے کہ ہم ثابت کر دکھائیں کہ واقعی ہم ایک نئی مملکت کے معمار ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ خدارا! کہیں لوگ ہمیں یہ نہ کہیں کہ ہم یہ بار اٹھانے کے قابل نہیں تھے. امید کے جگنو جب رات کے اندھیروں میں چمکتے ہیں تو اجالا ہو ہی جاتا ہے اور تم لوگ میری نسل نو، میری امید کے جگنو ہو، میری امید کی روشن کرنو، اپنے عمل سے اس دنیا میں اس مادر وطن کا نام روشن کر دو، دنیا کو یہ باور کرا دو کہ مسلمان جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا، اگر اسے جھکائوگے تو یہ بابر بن جائےگا، یہ ٹیپو سلطان کی صورت میں نمودار ہو کر اپنے جوہر دکھائے گا۔ یہ مر جائےگا لیکن محکومی کی زندگی قبول نہیں کرے گا۔ اٹھو بیٹا! بتادو دنیا کو کہ پاکستان کو اللہ پاک رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھےگا، اٹھو اور دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملادو۔‘‘
قائد نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا، اور اس کی نظروں سے دور ہونے لگے تھے۔ وہ اس کا حوصلہ بڑھانے آئے تھے۔ ان کا لمس اس کے اندر خون کی حدت کو بڑھا رہا تھا، وطن سے محبت کے جذبات و احساسات کوگرما رہا تھا۔
دشمن کے ہوائی اڈے پہ بمباری، اور کتنے میزائل ٹینکرز کو اڑایا تھا۔ وہ کس لمحے دشمن کی زد میں آیا؟ اسے معلوم نہیں تھا؟ سر آپ شدید زخمی ہیں۔ اس کے ساتھی اسے بتا رہے تھے۔ سر آپ آگے مت جائیں۔ مگر وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک جان میں جان میں ہے، میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔ مجھے آگے بڑھنا ہے۔
اس کے ساتھی کہہ رہے تھے کہ سر! آپ کو طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن اس کے اندر جنون تھا وطن سے محبت کا، آگے بڑھنے کا، وہ اپنے زخمی جسم کو لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سر! لیفیٹیٹ فہد رضا کو ہوش آگیا ہے۔ غالبا کسی نرس کی آواز تھی۔ وہ ہاسپیٹل میں تھا۔
اوہ! تو قائد مجھ سے ملنے میرے خوابوں میں چلے آئے تھے، داد دینے اور حوصلہ بڑھانے۔ یہ بتانے کہ پاکستان ہے ہمارا، پاکستان ہے تمہارا
ایک اطمینان اور دھیمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ تھی
تبصرہ لکھیے