دو عشروں پر محیط دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں جتنا نقصان تنہا پاکستان نے اٹھایا ہے، اس کا موازنہ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا. اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ بیس سالوں سے جاری بم حملوں اور خودکش دھماکوں کے مختلف واقعات میں 60 ہزار سے زائد بےگناہ لوگوں کو شہید کیا گیا جبکہ لاکھوں کی تعداد میں معذور اور زخمی ہوئے ہیں.
اس قربانی اور آئے روز ملکی حالات میں ابتری کے باوجود امریکہ کا ایک ہی مطالبہ رہا ڈومور جبکہ پورے ملک کو کراچی تا خیبر دہشت گردوں نے خاک و خون میں نہلا دیا اور جگہ جگہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے ملک کا امن تباہ ہو کر رہ گیا. پورے ملک میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی، عام عوام تو درکنار خود عوام کے محافظوں کو بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، دہشت گردی نے ایسی جڑیں مضبوط کیں جیسے انھی کا راج ہو.
اب یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں؟ کیا یہ دہشت گرد اتنے ہی منظم اور ماہر ہیں کہ جب جہاں چاہا بلاسٹ کر دیا؟ ہمارے ملکی مفادات اور تحفظ کے ضامن ادارے کہاں ہیں؟ حملوں کی پہلے سے رپورٹس ہوتی ہیں کہ فلاں مقام اور ادارے کو ہٹ کیا جا سکتا ہے، پبلک مقامات پر بھی دہشت گردی کی اطلاعات ہوتی ہیں مگر ان اطلاعات کے باوجود عملی طور پر کوئی روک تھام نہیں کی جا سکتی.
بس جوں ہی ادھر بلاسٹ ہوا، ادھر مختلف حکومتی ذمہ داروں کی طرف سے وہی روایتی بیان بازی سامنے آتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور آپریشن اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گا، اور پھر دہشت گردی کا کوئی اور واقعہ رونما ہو جاتا ہے. آخر کب تک عوام اس طرح مرتے رہیں گے، حکومت کب دہشت گردوں کے خاتمے کےلیے سنجیدہ اقدامات کرے گی؟
تبصرہ لکھیے