ہوم << ’’بول اٹھا بلوچستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ - سیلانی

’’بول اٹھا بلوچستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ - سیلانی

آج آپ کو سیلانی سرحد پار کی کچھ مزیدار خبریں سناتا ہے، لیکن پہلے زمین پر کسی گندے کپڑے کی طرح پڑا کپڑے کا یہ ٹکڑا دیکھ لیجیے اور اب ذرا تھوڑی دیر کے لے ایران چلیے۔ ایران بھی وہ جب یہاں کسریٰ حکمران تھا اور ایران دنیا کی سپر پاور ہوا کرتا تھا۔۔۔ جی جی وہی مسلمانوں کے شمشیرو سناں اول والے دور کا ایران، یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب چار سوایران کا طوطی بولتا تھا۔ ایرانیوں کی فوج کے نام سے ہی اچھے اچھے راجے مہاراجے کان پکڑ لیا کرتے تھے کہ ان کے پاس تو چنگھاڑتے ہاتھی ہیں۔ ایک ایک پاؤں کے نیچے چار چار کچلے جاتے ہیں۔ کم بختوں کی موٹی چمڑی میں تیر گھستا ہے نہ نیزہ اثر کرتا ہے۔ ان کے منہ کو کون آئے۔۔۔۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو سہی، اس کے گھمنڈی ایرانی شاہ کے دربار میں کیا ہورہا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں اس بے خود نڈر شخص کو، یہ جو ”شاہ“ کو کلمہ پڑھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کی کبریائی تسلیم کرلو یا پھر میدان میں آجاؤ۔ اللہ کی بڑائی مان لیتے ہو تو زمین بھی تمہارے پاس رہے گی اور اس کا نظم و نسق بھی۔ نہیں مانتے تو جزیہ دینا ہوگا اور دونوں باتیں نہیں مانتے تو پھر مقابلہ ہوگا۔۔۔ ان کی اس بات پر کسریٰ کا غصے میں تلملانا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ کہاں اس کی سرحد پر جمع چند ہزار جنگجو اور کہاں وہ ہاتھی گھوڑوں کی فوج رکھنے والا مطلق العنان حکمران۔۔۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں اس نے کیا کیا؟ اس نے مغیرہ بن شعبہ کے سر پر مٹی پھینک دی کہ مٹی کی بات کرتے ہو تو یہ لو مٹی۔۔۔ اور جاؤ اپنے سپہ سالار کو دے دینا کہ تمہارے سر پر خاک۔۔۔ اس نے مسلمان سفیر کی۔ بھرے دربار میں تضحیک کرکے یہ پیغام دیتے ہوئے روآنہ کردیا گیا کہ اگر انہوں نے ایران کی جانب دیکھنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ رسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ مسلمانوں کا سفیر اسی حال میں اپنے سپہ سالار سعد بن وقاص کے سامنے پیش ہوگئے اور سارا ماجرا کہہ ڈالا۔ سپہ سالار یہ دیکھ کر بالکل بھی پریشان نہ ہوئے اور کہنے لگا: ’’ایرانی بادشاہ نے مٹی نہیں پھینکی بلکہ اپنی زمین ہمارے حوالے کردی ہے اور پھر مورخ نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ عرب سے آنے والے تھوڑے سے مجاہدین نے سپر پاور ایران کی ناک رگڑوا دی۔ وہ چنگھاڑتے ہوئے ہاتھی میدان میں لائے تو ان کی سونڈیں کاٹ کر اس چلتی پھرتی بلا کا رخ انہی کی جانب موڑ دیا۔ ایرانیوں کی تلواریں گرگئیں اور ایران فتح ہوگیا۔
اب سیلانی کے ساتھ پندرہ اگست کی صبح بخشی اسٹیڈئم چلیے۔ ارے بھئی آیئے ناں کچھ نہیں ہوگا۔ آپ پر کوئی پیلٹ گن فائر کرے گا نہ جی ٹو کا برسٹ چلائے گا۔ ساتھ آئیں اور چپ چاپ تماشا دیکھیں۔۔۔ جی یہ بخشی اسٹیڈئم ہے۔ سری نگر کا بخشی اسٹیڈیم، سیکیورٹی دیکھ رہے ہیں آپ؟ ایک ایک فٹ فٹ پر بھارتی فوجی کھڑے ہیں۔ یہاں بھارت کی یوم آزادی کی سرکاری تقریب ہونا ہے۔ محبوبہ مفتی آرہی ہیں جھنڈالہرانے، اور یہ لیں وہ آگئیں، وقت کی پابند خاتون ہیں۔ ادھر یہ جھنڈے چڑھائیں گی اور ادھر ان کے پردھان منتری نریندر مودی ترنگا لہرائیں گے۔ شش شش چپ رہیے بھئی، بس دیکھتے جایئے۔
دیکھ رہے ہیں ناں محبوبہ مفتی صاحبہ لمبے سے سبز رنگ کے چوغے میں پورے کروفر کے ساتھ بخشی اسٹیڈئم پہنچی ہیں۔ بھئی یہ پروٹوکول اور اقتدار ہی تو ہوتا ہے جو بھائیوں کو قتل کروا دیتا ہے اور باپ کو قید خانے میں ڈلوادیتا ہے۔ مفتی صاحبہ نے بھی تو اپنے محبوب اقتدار کے لیے ضمیر کا ٹیٹوا دبا رکھا ہے۔ کشمیریوں کی جان لے رہی ہیں تو کیا عجیب۔۔۔ محبوبہ صاحبہ آگے بڑھیں۔ وہاں موجود لمبے تڑنگے سپاہیوں سے سلیوٹ وصول کیے اور پورے وقت پر ایک سکینڈ اوپر نہ نیچے ترنگا لہرانے کے لیے ہاتھ سامنے کردیا۔ اب ان کے ہاتھ میں ترنگے کی ڈور ہے۔ کچھ ہی دیر میں بھارتی پرچم پور ے جبر کے ساتھ سری نگر میں لہرانے لگے گا۔۔۔ یار! آپ بہت بولتے ہیں اور خواہ مخواہ بولتے ہیں۔ اب جبر کو جبر نہ کہوں تو کیا کہوں۔ یہ جو چالیس روز سے مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے، کیا یہ ڈل جھیل میں کشتیوں کی دوڑ کے لیے ہے؟۔۔۔ بس خاموش رہیں، وہ دیکھیں محبوبہ صاحبہ کے ہاتھوں میں ڈور ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ان کی ڈور دہلی سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے ترنگا چڑھانے کے لیے ڈور کھینچی۔ گلاب کی پتیاں بیچ میں رکھ کر تہہ کیا گیا۔ ترنگا آہستہ آہستہ اوپر جارہا ہے۔ اب جیسے ہی یہ اوپر پہنچے گا ہلکے سے جھٹکے سے کھل کر پھڑپھڑانے لگا۔۔۔ ارے ارے یہ کیا یہ، یہ، یہ تو پھڑپھڑانے کے بجائے نیچے زمین پر آرہا۔۔۔ یہ تو محبوبہ مفتی صاحبہ کے پیروں میں پڑا ہوا ہے۔۔۔ اوہ مائی گاڈ۔۔۔ چچ چچ بہت افسوس ہوا۔ بھارتی ترنگے کی ایسی بے حرمتی ورسوائی پر۔۔۔ اسی موقعے کے لیے انہوں نے کرفیو لگاکر ہزاروں فوجی کھڑے کیے تھے کہ کوئی آتنک وادی، گھس بیٹھیا رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ چائے میں تمباکو نہ پھینک دے۔۔۔ کیسی شرمندگی کی بات ہے بھئی، پوری دنیا دیکھ رہی ہے کشمیری وزیر اعلٰی کے چہرے پر ہوائیاں تو اڑیں گی ناں۔۔۔ اوہ دیکھو کیسی شرمندہ شرمندہ سی لگ رہی ہیں۔ چلیں اب واپس آجائیں آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ سیلانی کی بہنوں نے گھر کی صفائی ستھرائی کرنی ہے۔ کسی نے بجلی جانے سے پہلے واشنگ مشین لگانی ہے تو کسی نے پونچھا لگانا ہے۔ بھائی لوگوں نے بھی دفتر جانا ہوگا۔ سو کام ان کے منتظر ہوں گے۔ باقی وہاں جو کچھ ہوا میں بتادیتا ہوں۔
سیلانی کو سرحد پار سے پتا چلا کہ مودی جی نے اس ’’درگھٹنا‘‘ کا بڑا ہی سخت نوٹس لیا۔ ان کی سیاہ پیشانی پر کئی بل پڑ گئے۔ انہوں نے انکوائری بھی بٹھادی کہ معلوم کریں اس کے پیچھے کس کا ہاتھ، اور ہاتھ جس کا بھی ہو اس کے پیچھے بازو آئی ایس آئی کا ہی تلاش کرکے دو۔۔۔ اس ہدایت کے ساتھ وہ خوب گرجے برسے۔ انہیں بلوچستان بھی یاد آگیا اور انہیں کی سینے میں بلوچوں کے لیے درد بھی اٹھا۔ اس درد میں کلبھوشن یادو کی پکڑائی کا دکھ بھی شامل تھا۔ سیلانی کو خبر ملی ہے کہ سری نگر میں جھنڈا گرائی کی تقریب اور پاکستان پر گرجنے برسنے کے بعد انہوں نے ایک گھپا میں دھونی جماکر بیٹھے ننگ دھڑنگ گیانی سادھو سے رابطہ کیا اور انہیں پرنام کرنے کے بعد ترنگے کے ساتھ ہونے والی رسوائی کا بڑے ہی دکھ بھرے انداز میں ذکر کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سادھو کے پاس کبھی کبھار ہی جاتے ہیں۔ سادھو مہاراج نہاتے دھوتے ہیں نہ استنجا کی زحمت کرتے ہیں۔ اس بنا پر ان سے آنے والی ’’خوشبو‘‘ کئی دن تک نتھنوں میں موجود رہ کر ان کی یاد دلاتی رہتی ہے۔۔۔ سیلانی کو انہی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے بنارس کے بڑے مندر کے مہان پجاری سے بھی رابط کیا ہے کہ وہ جھنڈا گرائی کا شگن معلوم کرکے بتائیں اور خصوصی پوجا بھی کرائیں۔ مودی جی نے کالی ماتا کے مندرکے پجاری سے بھی کہا ہے کہ وہ دیوی جی کے چرنوں میں بلی چڑھانے والے کشمیری مسلمانوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ پجاری جی بھی پوجا کی آنچ تیز کردیں۔
سیلانی کو مزید پتا چلا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی جھنڈے کی بے توقیری کے بعد مودی جی کے منہ کا ذائقہ کشمیری راجہ کے بیٹے نے خراب کردیا ہے۔ بھارت سے کشمیر کا سودا کرنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن نے بھارتی سرکار کو سرخ جھنڈی دکھادی۔ راجیہ سبھا میں بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کے پتا جی نے بھارت سے معاہدے میں یہ تھوڑی کہا تھا کہ بھارت کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ جب ان کے والد نے بھارت سے الحاق پر دستخط کیے تو وہ اس وقت وہیں موجود تھے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کے پاس صرف مواصلات، دفاع اور امور خارجہ کے محکمے ہونے تھے۔ باقی معاملات ریاست کی ذمہ داری تھی۔ کشمیر پہلے کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا نہ اب ہے۔۔۔۔ لنکا ڈھانے والے گھر کے بھیدی نے اسی پر بس نہیں کیا۔ یہ بھی کہہ دیا کہ بھارت کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دے کر پاکستان سے مذاکرات سے انکار نہیں کرسکتا۔ کشمیر کبھی بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا تو اٹوٹ انگ کیسے ہوگیا؟ یہ آخری برطانوی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت تھی جس کا نتیجہ کشمیری آج بھی بھگت رہے ہیں‘‘۔
سیلانی کو دہلی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر کرن کے اس لنکا ڈھانے پر مودی جی کا موڈ بہت خراب ہوا۔ اتنا تو اپنی پتنی جاشو دابھن کے ذکر پر بھی نہیں ہوتا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ وہ بلوچستان جس کے غم میں پندرہ اگست کو ان کے سینے میں درد اٹھا تھا، اب ان کے پیٹ کا مروڑ بن چکا ہے۔ سیلانی کو ان کی تکلیف کا اندازہ ہے۔ اس کرب کا اندازہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان پر انگلی اٹھاچکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے اور اس ہمدردی کے جواب میں کوئٹہ سے لے کر قلات اور قلات سے لے گوادر اور گوادر سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک میں بلوچ پشتون خالص پاکستانی بن کر مودی کے پتلے جلارہے تھے۔ سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ سیلانی قومی میڈیا پر بلوچوں کا غصہ دیکھ رہا تھا۔ وہ کہیں مودی کے پتلے کو گدھے پر بٹھاکر اسے اس کا مقام بتا رہے تھے تو کہیں جوتیاں برساکر اس کی تقریر کا سواگت کررہے تھے۔ اسی پر بس نہ چلا تو انہوں نے مودی کے پتلے کو ریل کی پٹری پر لٹاکر ٹرین چلواکر واضح پیغام دے دیا کہ مودی جی اپنی للو سنبھال کر رکھیں۔
سچی بات ہے بلوچستان میں پاکستان کے لیے ہونے والے مظاہرے اس کے لیے بڑے خوش کن تھے۔ مزے کے یہ سب دیکھنے کے بعد سیلانی نے چینل تبدیل کرتے ہوئے عابدہ پروین کو سر لگاتے دیکھا اور وہی ریموٹ رکھ دیا۔ عابدہ پروین ابھی سر لگا ہی رہی تھی کہ اس کے سیل فون کی گھنٹی نے ڈسٹرب کردیا۔ اس نے بادل نخواستہ فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسی شور میں کسی نے اس کا نام پکارا ’’سیلانی بھائی!‘‘
’’جی ،جی بول رہا ہوں آپ کون؟‘‘
’’میں نصراللہ بگٹی بول رہا ہوں‘‘
’’نصراللہ بگٹی۔۔۔‘‘ سیلانی بڑبڑایا۔ اسے تو اس نام کا کوئی شناسا یاد نہ تھا۔
’’آپ سے دو سال پہلے سول اسپتال ملاقات ہوا تھا۔‘‘
’’اچھا اچھا ضرور ہوا ہوگا۔ کہو کیسے یاد کیا؟‘‘
’’آپ کو تو ہم یاد ہی رکھتا ہے۔ آپ نے کبھی یاد نہیں کیا۔ ہم آپ کو یہ آواز۔۔۔‘‘ شور کی وجہ سے سیلانی نصر اللہ کی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ عجیب سا شور تھا جیسے نعرے لگ رہے ہوں:
’’یہ شور نہیں ہے پاکستان زندہ باد کا نعرہ ہے۔ ہم لوگوں نے پاکستان کے لیے ریلی نکالا ہے۔۔۔۔‘‘
’’کیا؟‘‘ سیلانی چونک گیا۔ ڈیرہ بگٹی میں پاکستان کے لیے ریلی، یہ علیحدگی پسند برہمداخ بگٹی کا آبائی ضلع ہے۔ اسی برہمداخ نے بھارتی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا تھا اور اسی شکر گزاری پر اس کے قبیلے کے لوگ اس کے اپنے گھر پر اس پر برہم تھے۔
’’آپ ڈیرہ بگٹی میں ہو؟‘‘ سیلانی کے لہجے میں ابھی تک بے یقینی تھی۔
’’ہاں ہاں، سیلانی بھائی ہم ڈیرہ بگٹی میں ہوں۔ آپ حیران کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہم پاکستانی نہیں ہے؟ یہ لو سنو۔۔۔‘‘ اس کے بعد نصر اللہ کے فون کا اسپیکر پاکستان زندہ باد، مودی مودی مردہ باد کے نعرے سنانے لگا۔ یہ آوازیں یہ شور اتنا میٹھا لگ رہا تھا کہ سیلانی نے سامنے ٹیلی ویژن پر اپنی پسندیدہ گلوکارہ عابدہ پروین کی آواز دبی ہی رہنے دی اور مسکراتے ہوئے پاکستان زندہ باد کے نعرے سننے لگا۔ یہ نعرے اسی سرزمین سے پھوٹ رہے تھے، جہاں بھارت ایک عرصے تک اپنی انٹیلی جنس ایجنسی RAWکے کلبھوشنوں سے دہشت گردی کی آگ کو ہوا دیتا رہا اور اب اپنے تئیں بغاوت کا الاؤ جلاکر پاکستان کو کشمیر پر بلیک میل کرنے لگا تھا کہ اگر کشمیر کشمیر کی آواز بند نہ کی تو تمہارا بلوچستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آج وہی بلوچستان مودی کو جوتے دکھا رہا تھا۔ آج وہی بلوچستان بول اٹھا تھا۔۔۔ پاکستان پاکستان، سیلانی فون کان سے لگائے ڈیرہ بگٹی کے بگٹی بھائیوں کے فلک شگاف نعرے سننے لگا اور مسکراتے ہوئے چشم تصور میں نریندرا مودی کی سیاہ پیشانی پر پسینے کے چمکتے قطرے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔