پاکستان کے مقتدر حلقوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس اتفاق رائے میں بعض پاکستانی حلقے رخنے ڈال رہے تھے، اور طرح طرح کے سوالات اُٹھا کر اڑنگا لگا رہے تھے، اس کا حصول مودی صاحب کے چند الفاظ کی وجہ سے آسان ہو گیا۔ اب پاکستان میں کسی سیاست دان یا تجزیہ کار کو ہمت نہیں ہو پا رہی کہ وہ بلوچستان میں ''را‘‘ کی دخل اندازی کے الزام کو قبول کرنے سے انکار کرے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اُلجھ کر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش میں مبتلا ہو۔
کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد، ہسپتال میں اکٹھے ہونے والے وکلا کو جس طرح خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا، اور اِس صوبے کو پچاس سے زائد ممتاز قانون دانوں سے محروم کر دیا گیا، وہ کوئٹہ ہی نہیں پورے پاکستان کی تاریخ کا ایک بدترین سانحہ تھا (اور ہے)... حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اِس اجتماعی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے کہ جب ایک کمیونٹی کے سربراہ کو نشانہ بنایا جائے گا، تو اس کے ارکان خبر سنتے ہی ہسپتال کی طرف بھاگیں گے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر ان کا شکار کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اِس سے پہلے کئی وارداتیں اِس طرح کی جا چکی تھیں، اور حملہ آور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
کوئٹہ خود کش حملے نے جہاں وکلا کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، وہاں کم و بیش اتنی ہی تعداد میں انہیں زخمی بھی کر دیا۔ ان میں سے بہت سے اب بھی کراچی کے آغا خان ہسپتال میں زیر علاج ہیں... اس حملے کے فوراً بعد بلوچستان کے دبنگ وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اس کی ذمہ داری ''را‘‘ پر ڈال دی۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور حکومتی ترجمان انوارالحق کاکڑ نے اس موقف کے حق میں دلائل کے ڈھیر لگا دیے۔ ان کا کہنا تھا (اور ہے) کہ وارداتیا کوئی بھی ہو، اور اس کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرے، اس کے پیچھے ''را‘‘ کی منصوبہ سازی ہے کہ وہ افغان انٹیلی جنس کی معاونت کے ساتھ بلوچستان کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسے سی پیک کی تعمیر میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی قرار دیا،... اس پر بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان محمود اچکزئی نے اِس طرح اظہارِ خیال کیا، جس سے ذمہ داری قومی اداروں کی طرف منتقل ہو جاتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ''را‘‘ کا نام لے کر ہمارے ادارے اور ایجنسیاں اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں کر سکتے۔ کئی اور لوگوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی کہ ان کے خیال میں بھی ''را‘‘ کی کامیابی ہمارے اداروں کی ''ناکامی‘‘ تھی۔
ہمیں13 اور 14اگست بلوچستان میں گزارنے اور مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی خدمت میں حاضر ہو کر شہدا کی بلندی درجات کے لیے دُعا کی۔ اپنے جوان بیٹے دائود اور کئی عزیزوں سے محروم ہو جانے والے ڈاکٹر عبدالمالک کاسی سے تعزیت کے لئے حاضر ہوئے۔ وکلا، میڈیا، سول سوسائٹی کے ارکان، فوجی حکام اور سیاسی قائدین سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ کوئٹہ حادثے کا صدمہ تو ہر شخص کو تھا، لیکن اوسان کسی کے بھی خطا نہیں تھے۔ ضعیف العمر ڈاکٹر عبدالمالک کاسی تک دہشت گردوں سے لڑنے اور انہیں شکست دینے کے لیے پُرعزم تھے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ ہمارے قبیلے، ہمارے شہر یا ہمارے صوبے پر نہیں، پاکستان پر حملہ ہے، اور پاکستان کے دشمنوں کو شکست دے کر دم لیں گے۔ ہسپتال میں موجود زخمی بھی اپنے سے زیادہ، پاکستان کے لیے فکرمند تھے۔ اپنے مُلک کی سلامتی اُن کی اولین ترجیح تھی۔
وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری اور سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض آزادی کی تقریبات میں شانہ بشانہ تھے، اور ایک دوسرے کی قوت بنے ہوئے تھے۔ الفاظ کا چنائو اپنا اپنا تھا، لیکن جذبہ اور لہجہ یکساں تھا... ہر جگہ پُرجوش تالیاں اُن کے حصے میں تھیں۔ زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی کے احاطے میں ہونے والی پُرشکوہ تقریب میں بھی مقررین اور سامعین ایک ہی طرح سوچتے معلوم ہو رہے تھے... جنرل عامر ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک جذبہ ہے اور جذبے کو زوال آ سکتا ہے، نہ یہ ختم ہو سکتا ہے۔ ایک سپاہی کے طور پر وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم تھے۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے، بیرون مُلک بیٹھ کر تاریں ہلانے والوںکو اُن کی للکار تھی کہ ہمت ہے تو واپس آئو، اور انتخاب لڑ کر دکھائو۔ اگر ضمانت ضبط نہ ہوئی تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
وہ وزیر اعظم مودی کو بھی چیلنج دے رہے تھے کہ تم بلوچستان کا نام کشمیر کے ساتھ لیتے ہو، دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کے منتخب نمائندے حکومت کر رہے ہیں۔ پانچ سو سال سے اِس زمین کے وارث ہم ہیں اور ہم کسی کو اِس طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔ بلوچستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اِس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ بھارت ان کی سرزمین کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ یہاں سے پکڑے جانے والے بھارتی نیوی کے ایک افسر... کلبھوشن یادیو... کا نام لے کر وہ سوال کرتے تھے کہ اور کیا ثبوت چاہیے؟ ثبوت مانگنے والوں کی خدمت میں مودی صاحب کا براہِ راست اعترافِ جرم تو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 15 اگست کو مودی صاحب نے پوری دُنیا کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ ان کی اپنی آواز پورے جوش و خروش سے بلند ہوئی: ''مَیں لال قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ چند روز میں بلوچستان، گلگت اور پاکستانی ''مقبوضہ کشمیر‘‘ کے لوگوں نے تشکر اور (میرے بارے میں) بڑی نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے۔ ایسے لوگ جو یہاں سے بہت دور رہ رہے ہیں۔ جن سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی، جن کو مَیں نے کبھی دیکھا تک نہیں، انہوں نے ہندوستان کے وزیر اعظم کی قدر افزائی کی ہے۔ یہ سب ہم وطنوں کی انڈیا کے ایک سو پچیس کروڑ عوام کی قدر افزائی ہے‘‘۔ اِن الفاظ نے دور و نزدیک یہی پیغام بھیجا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کے سنجیدہ میڈیائی اور سیاسی حلقے بھی اِس پر سٹپٹا رہے ہیں، اور پاکستان میں اپنے اداروں کو بے اعتبار ثابت کرنے کی خواہش رکھنے والے بھی بوکھلا اُٹھے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے جو کام کر دکھایا ہے، اس کی انہیں داد ملنی چاہیے۔ پاکستانی ریاست، اس کے ادارے، اور اس کے عوام اِس اعترافِ جرم پر اُن کے شکر گزار ہیں ؎
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
تبصرہ لکھیے