ہوم << محمود اچکزئی کا فائدہ یا نقصان؟ نجم الحسن

محمود اچکزئی کا فائدہ یا نقصان؟ نجم الحسن

نجم الحسن دلیل پر بہت ہی محترم جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی تحریر’’محمود اچکزئی کا فائدہ‘‘ پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے بڑے مثبت انداز میں جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے پچھلے دنوں کی کچھ ’’غیر ارادی‘‘ یا شاید ارادی طور پر دیےگئے پاکستان مخالف بیانات کا دفاع کیا ہے یا شاید ایک مثبت پہلو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کے تجربے اور تجزیے کا اعتراف ہے لیکن ان کے کچھ افکار بلکہ کچھ مکالمات سے اختلاف ہے۔ اس کی وجہ میری کم علمی بھی ہو سکتی ہے مگر اپنے خیالات کو ان تک پہنچائے اور اپنی اصلاح کیے بغیر ان کی کسی بات کو رد کرنا میری نظر میں گستاخی کے مترادف ہے۔ لہذا اس تحریر کا مقصد صرف ان کی تحریر کے چند کلمات پر اپنا نقطہ نظرپیش کرنا اور ان کے بیش بہا تجربے سے کچھ سیکھنے اور اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیاست و ریاست کے رموز و اوقاف سے آشنائی حاصل کرنے کی ایک جسارت ہے۔
جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے موقف کے مطابق محمود خان اچکزئی کے ادا کردہ الفاظ و کلمات یا ان کا دیا گیا بیان قابل محاصرہ نہیں بلکہ اس سے پاکستان، پاکستانیت اور پاکستانیوں کو تقویت ملے گی۔ مگر میرا کہنا ہے کہ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا کیونکہ اچکزئی صاحب جیسے دیرینہ سیاستدان کی زبان سے نکلے الفاظ ان کے کارکنان کو متاثر کریں گے، یاد رہے کہ وہ پارٹی سربراہ بھی ہیں اور ایک حلقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں. عوام کی سیاسی بصیرت کتنی ہے، یہ سب کو معلوم ہے. جن کووہ مخاطب کر رہے ہیں، وہ اتنے تعلیم یافتہ نہیں کہ اچکزئی صاحب کی دوراندیشی یا ان الفاظ کے درپردہ حقائق کو سمجھ سکیں؟ ان کے حلقہ ارادت میں تو اس حوالے سے نفرت ہی پھیلے گی. ماضی اس کا گواہ ہے.
یہ بات صد فیصد درست ہے کہ نیشنلزم کے نام پر ووٹ لینے والوں کو اپنی قومیت سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے، مگر سوال تب اٹھتا ہے جب قومیت سے وفاداری ریاست اور آئین پر مقدم ہو جاتی ہے. ایسے میں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آیا وہ ریاست کے وفادار ہیں یا اس کے خلاف۔ قومیت کوئی بھی ہو، ریاست اسے کبھی بھی اپنے راستے میں روڑے اٹکانے کا موقع نہیں دے گی، ماڈرن ریاست کا یہ بنیادی اصول ہے۔ جہاں تک معاملہ اپنے ووٹرز کو کارکردگی دکھانے کا ہے تو وہ تو اپنے حلقے میں عوام کی خدمت سے دکھائی جانی چاہیے. حلقوں اور عوام کی جو صورتحال ہے، وہ بھی سب کے علم میں ہے. جو نمائندے اپنے ووٹرز کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا نہ کرا سکیں، وہ منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں. زندگی کا تحفظ ریاست کے ساتھ ان نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے مگر یہ نمائندے زخموں پر مرہم پٹی کے بجائے اشتعال انگیزی میں اپنی ناکامی کو چھپاتے ہیں.
آپ کا مثبت رویہ سر آنکھوں پر مگر یہ بھی بتلا دیجیے کہ یہ مثبت رویہ کتنے لوگوں میں پایا جاتا ہے؟ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جو جذباتیت اور عدم برداشت کا نمونہ ہے۔ مثبت رویے کے ساتھ حقیقت پسندی کا بھی مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اچکزئی صاحب کی باتوں اور مخصوص الفاظ کے استعمال سے، خاص طور پر اس وقت جب جذبات بھڑکے ہوئے ہوں، خرابی پیدا نہیں ہوگی؟ ایسے وقت میں جب انسان اپنوں کے غم سے نڈھال ہوں، ان سے ہوش میں رہنے کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ ان کے اندر کے غبار اور ناامیدی کو کم کیا جائے، نہ کہ ان کے زخموں پہ نمک چھڑک کر اور آگ لگا دی جائے اور ان کے جذبات سے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا راستہ ہموار کیا جائے.
پارلیمنٹ میں بات کرنا یقینا ان کا حق ہے مگر کیا بات کرنی ہے؟ کون سے الفاظ استعمال کرنے ہیں؟ اور کس کے خلاف اور کس کے نمائندے کے طور پر بات کرنی ہے؟ یہ نقطہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کے ووٹ تو پاکستانیوں کے ہوں، آپ نمائندے تو پاکستانی عوام کے ہوں لیکن بات آپ پاکستانی سرزمین اور حدود کے خلاف کر رہے ہوں، جیسا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ہی کہا کہ میں’’پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘. اس جملے کا سیاق وسباق تو شاید آپ یا ان لوگوں کے علم میں ہوجو ایسے موضوعات پر دسترس رکھتے ہوں۔ لیکن میڈیا میں صرف یہی نعرہ مشہور کیا جائے، جو کہ ملک دشمن عناصر کا ایک بہترین طریقہ ہے تو سادہ لوح عوام کو آسانی سے گمراہ کر کے ملک دشمن جذباتیت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، ایسے میں قصور وار تو اچکزئی صاحب جیسے سیاستدان ہی ہوں گے۔ اس سے عام عوام میں ملک کے خلاف نفرت کا زہر بڑھےگا کم نہیں ہوگا۔ اور اس میں اچکزئی صاحب ہی مورد الزام ٹھہرائے جائیں‌گے. اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو بندوق سے زیادہ الفاظ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ بندوق سےنکلی گولی تو صرف چند افراد کی زندگیاں گل کرتی ہے لیکن منہ سے نکلے الفاظ کا زہر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور بڑھتا ہی رہتا ہے۔
’’بند مٹھی لاکھ کی، اسے بند ہی رکھیے‘‘ جیسے مشورے پر میرا خیال ہے کہ بند مٹھی بھلے کروڑوں کی ہو، جب تک کھلے گی نہیں، اس کا پتہ کیسے چلےگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ خالی ہی نکلے، لاکھوں کے خاطر ہاتھ بندھے ہی رہ جائیں اور جو کچھ ہاتھ لگنے کا امکان ہو وہ بھی جاتا رہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ اچکزئی صاحب جیسے تجربہ کار، آئین کے ماہر اور ریاستی امور میں لاثانی واقفیت کار سیاستدان کو بھی دیکھ بھال کے چلنا چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment