اے آتش فراغت دل ہا کباب کردہ
سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ
پیر و مرشد سے بیعت ہو کر محبوب الٰہی نے ان سے باطنی علوم حاصل کیے، خلیفہ کا منصب ملا، پھر مرشد کے حکم پر دلّی روانہ ہوگئے. دلّی میں اس فقیر کے در پر شاہوں کا ہجوم ہوتا تھا. شاہ غیاث الدین بلبن کے پوتے معزالدین کیقباد کو محبوب الٰہی سے اس درجہ عقیدت تھی کہ اس نے خانقاہ کے قریب قصر تعمیر کروایا اور اس میں سکونت اختیار کی. محبوب الٰہی اکثر فرماتے تھے.
’’جتنا غم و اندوہ مجھے ہے اتنا اس دنیا میں اور کسی کو نہ ہوگا کیونکہ اتنے لوگ آتے ہیں اور صبح سے شام تک اپنے دکھ درد سناتے ہیں، وہ سب میرے دل میں بیٹھ جاتے ہیں. عجب دل ہوگا جو اپنے مسلمان بھائی کا دکھ سنے اور اس پر اثر نہ ہو۔‘‘
اس گلی کی ہوائوں اور عمارتوں کے شکستہ در و بام کو محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء کی تصنیفات فوائد الفواد، فصل الفواد، راحت المحبین اور سیر الاولیاء کی سرگوشیوں کی امین رہنے کا شرف حاصل ہے. معرفت کے اسرار و رموز کا کون سا ایسا پیمانہ ہے جو اس گلی میں لبریز نہیں کیا گیا. حضرت نظام الدین جیسا صوفی اس گلی کا مکین ہے، اسد اللّہ خاں غالب جیسا فلسفی یہاں کا باسی ہے، طوطی ہند امیر خسرو جیسا آل راؤنڈر یہاں اپنے علم و فن کے جام لنڈھا چکا ہے. محبوب الٰہی کے مزار کے احاطے میں مشرقی جانب محبوب محبوبِ الٰہی امیر خسرو کا مزار موجود ہے. امیر خسرو کے مزار سے محبوب الٰہی کے مزار کی جانب دیکھا جائے تو امیر خسرو کے ہی الفاظ یاد آتے ہیں.
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جان شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
اگر فردوس بر روے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
اسی فردوس میں اردو زبان کی داغ بیل پڑی تھی اور اردو کا پہلا شعر بھی یہیں امیر خسرو سے منسوب ہوا. اسی فردوس میں امیر خسرو نے تغلق نامہ، خمسہ نظامی، اعجاز خسروی، خزائن الفتوح، افضل الفوائد اور افضل الباری جیسی کتابیں تحریر کیں. اس زمانے کے مصنفین دس دس کتابیں لکھ کر بھی زمین سے جڑے رہتے تھے. آج کا لکھاری ایک کتاب لکھ کر مالیخولیا کا شکار ہوجاتا ہے، اور چڑچڑا بن کر ہر ایک کی مخالفت کرنے لگتا ہے. امیر خسرو کی وفات 1325ء عیسوی میں ہوئی اور وہ اپنے مرشد محبوبِ الٰہی کی نزدیک دفن ہو کر اپنے الفاظ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کی مجسّم تفسیر بن گئے.
رات کے ڈھائی بج چکے تھے. فضا میں سکوت چھایا ہوا تھا. شب کی اس خاموشی میں محبوب الٰہی اور طوطی ہند کا یہ خوبصورت سنگم مجھے صدیوں پرانے ماحول میں لے گیا.
عقب سے غالب نے صدا لگائی.
اہلِ ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے میں، میں برگزیدہ ہوں
عاصی ہونے کے ناطے میری آنکھیں چمک اٹھیں. میں محبوب الٰہی اور امیر خسرو کو فلائنگ کس دے کر روم سے باہر اس مقام پر جا کھڑا ہوا جہاں سے مزارِ غالب نظر آتا تھا.
اسٹریٹ لائٹ کی تیز روشنی غالب اکیڈمی پر پڑ رہی تھی جس کے سائے میں مزارِ غالب پر تاریکی تھی. اگر غالب اکیڈمی کو ڈھا دیا جائے تو مزارِ غالب کا ذرّہ ذرّہ روشنی سے معمور ہوگا.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
عمده تحریر
گر فردوس بر روئے زمیں است
اس شعر کی بابت روایت ہے کہ شاہ جہان نے کشمیر کی بابت فی البدیہہ کہا تھا جب پہلی بار کشمیر کے نطاروں سے نگاہ چار ہوئی تھی
[…] سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]