بچے آپ کے اور فرمانبرداری کسی اور کی، اب یہ نوبت آگئی ہے کہ اسمبلی میں قرارداد پیش کرنی پڑی کہ ڈورے مون کارٹون پر پابندی لگائی جائے، گویا ماں باپ اپنے بچوں کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں. اب بچے اُن کا کہنا نہیں مانتے اس لیے اب زبردستی بچوں کو کارٹون دیکھنے سے روکا جائے گا۔
کوئی معاشرہ بچوں کے لیے جو رویہ اختیار کرتا ہے وہی اس کا معاشرتی میعار قرار پاتا ہے۔ بچے معاشرے کا ارتقاء اور اس کی متحرک زندگی کا عکس ہوتے ہیں۔ بچے سماجی اور معاشرتی اقدار کے تحفظ کی بقا کے سفیر ہوتے ہیں۔ زی نیوز نے ڈورے مون کارٹون پر پابندی کی خبر کچھ اس طرح پیش کی کہ پاکستان اب ہندی میں ڈب کیے گئے کارٹونز ڈورےمون اور چھوٹابھیم سے بھی ڈرنے لگا ہے اور ان ہندی میں ڈب کیے گئے کارٹونز سے پاکستان کی سنسکرتی (ثقافت) کے لیے خطرہ ہے۔ اور ہندو سنسکرتی (ثقافت) کا بڑھاوا ہو رہا ہے۔ ڈورے مون کی تخیلاتی کہانی پہلی دفعہ دسمبر 1969ء میں بچوں کے میگزین میں شائع ہوئی، پھر اپریل 1973ء کو جاپان کے Nippon ٹیلی ویژن پر کارٹون نشر کیا گیا۔ اس کارٹون کا مرکزی کردار نوبیتا اور اُس کی روبوٹک بلی ڈورے مون ہے. نوبیتا سست و کاہل بچہ ہے۔ روبوٹک بلی ڈورے مون نوبیتا کی مدد کرتی ہے جو کام نوبیتا سے نہیں ہو پاتے، ڈورےمون وہ کردیتی ہے۔ نوبیتا پڑھائی میں بھی اچھا نہیں ہے اور جب اُس کا رزلٹ خراب آتا ہے تو وہ والدین سے چُھپتا ہے اور اگر والدین ڈانتے ہیں تو گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکی بھی دیتا ہے اور جب اُس کی ماں اُسے سمجھاتی ہے تو اپنی ماں کو گھمنڈی کہتا ہے اور قابل اعتراض بات اس بچے کی ایک لڑکی سوزوکا سے دوستی بھی ہے جس سے وہ شادی کے متعلق کہتاہے کہ سوزوکا تم کسی اور سے یا ان دونوں کے ایک اور دوست ڈیکوسوزی سے شادی کرلینا کیونکہ میں تو اتنا اچھا نہیں ہوں تم کو زیادہ خوش نہیں رکھ سکوں گا. اس کے علاوہ یہ دونوں اس کارٹون کے اکثر مناظر میں باتھ روم میں بھی ساتھ پائے جاتے ہیں۔ کبھی نہایت ہی مختصر لباس میں اور کبھی تو بغیر لباس کے۔
اس وقت بچوں کے کئی چینلز پر کئی طرح کے کارٹون نشر کیے جاتے ہیں تو صرف ڈورےمون ہی کو کیوں بند کیا جائے؟ ماں باپ کا شکوہ ہے کہ بچے سارا دن یہ کارٹون دیکھتے رہتے ہیں جس سے اُن کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور اس طرح کے مختصر لباس والے مناظر، رومانوی جملے اور والدین سے بدتمیزی بچوں کے اور کارٹونز میں بھی موجود ہیں جن میں قابل ذکر The Fairly Odd Parents ،Horrid Henry Teen titan، ہے.
کچھ چینلز پر اچھے کارٹون بھی آتے ہیں جیسے سی ٹی وی کا کارٹون جان جو ایک پانچ سال کے بچے کا کردار ہے، اُس کے ساتھ گھر میں امی ابو بھائی بہن اور دادی شامل ہیں۔ جان گھر کے کاموں میں اپنی امی کی مدد بھی کرتا ہے اور اُس کی امی اور دادی اُسے اچھی باتیں بھی بتاتی ہیں جن پر وہ عمل بھی کرتا ہے۔ جیسے ایک دفعہ گھر میں پانی نہیں آ رہا ہوتا اور جان کی امی کو برتن دھونے ہوتے ہیں تو جان اور اُس کا بھائی باہر سے پانی بھر کر لاتے ہیں اور برتن دھونے میں اپنی امی کی مدد کرتے ہیں۔ اور ایک دفعہ جان دوپہر میں کھانا بچا دیتا ہے تو اُس کی امی اُسے رات میں وہی کھانا گرم کرکے دیتی ہیں کہ تم نے کھانا کیوں بچایا تھا اور پھر جان وہ کھانا کھاتا بھی ہے۔اس کے علاوہ اگر تعلیم اور تربیت کی بات کی جائے تو ایک انڈین مسلم کارٹون میں عبدالباری نامی بچہ مرکزی کردار ہے جسے اُس کی آپا دعائیں اور اسلامی اور معاشرتی آداب سکھاتی ہے جو قابل تعریف ہے۔ پاکستان میں مثبت پیغامات پر مبنی animated کارٹون قائد سے باتیں جیو نے بھی نشر کیا اس کارٹون کا مرکزی کردار زینب ہے جوجب کبھی مشکل میں ہوتی ہے تو سوچتی ہے کہ اگر قائد ہوتے تو کیا کرتے، پھر قائد اس کے خواب میں آکے اسے بتاتے ہیں کہ وہ اس مسلئے کا کیا حل نکالے. اس کارٹون سیریز کی پہلی قسط میں زینب جب اپنے محلے میں کچرے کے ڈھیر کو دیکھ کر پریشان ہوتی ہے تو قائد اس کے خواب آ کر اسے پاکستان دکھاتے ہیں کہ اگر اسی طرح سب کچرا پھینکتے رہے تو پاکستان کا کیا ہوگا؟ پھر زینب اپنے گھر اور محلے سے کچرا اُٹھانا شروع کرتی ہے تاکہ پاکستان کچرے سے صاف کیا جاسکے۔
جیو ٹی وی پر 28 جولائی 2013ء کو برقع اویجنز بھی نشر کی گئی جس کا دس زبانوں میں ترجمہ کرکے افغانستان اور بھارت میں بھی نشر کیا گیا، اس کارٹون نے کئی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ ٹائم میگزین نے اسے 2013ء کا بہترین تصوراتی کردار قرار دیا اب تک اس کے چار سیزنز آچکے ہیں۔ اس کارٹون کا مرکزی کردار جیا اور اس کے تین دوست آشو، امو اور مولی ہیں، جیا بچوں کو پڑھاتی ہے، اس کے گائوں میں کچھ بدعنوان سیاستدان نہیں چاہتے کہ بچے تعلیم حاصل کریں جن میں وڈیرو پجیرو اور بابا بندوق شامل ہیں. یاد رہے کہ اس کارٹون میں بابا بندوق کی وائس اوور حمزہ عباسی نے کی ہے اور گانے علی عظمت اور ہارون نے گائے ہیں. اس کارٹون کا مرکزی خیال اور ڈائرکشن بھی ہارون کی ہے۔ برقعہ اویجنز پر تنقید کرتے ہوئے شیری رحمن نے کہا تھا کہ برقعہ کے علاوہ اگر صرف دوپٹہ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا جس کا جواب ہارون نے کچھ یوں دیا کہ سپر ہیروز اپنی شناخت دنیا پر ظاہر نہیں کرتے اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور دوسرے کارٹونز میں سپر ہیروز کا لباس مختصر ہوتا ہے۔ ہماری سپر ہیرو کا کردار ایک لڑکی نے ادا کرنا تھا اور ہم نے اُسے اپنی معاشرت کے مناسبت سے بنایا تو اُس کے لیے برقع سب سے بہترین لباس سمجھا کیونکہ یہ ہمارا معاشرتی و ثقافتی لباس بھی ہے اور اس میں سپر ہیرو کی شناخت بھی واضح نہیں ہوتی۔
2015ء میں اے آر وائی فلمز کی پیشکش انیمیٹڈ فلم تین بہادر بھی بچوں کے لیے اچھی کوشش تھی جو ڈیرھ کروڑ کے بجٹ میں تیار کی گئی اور اس نے 6 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا. اس فلم نے بھی کئی ایوارڈز حاصل کیے۔ اس فلم کے مرکزی کردار تین بچے سعدی، کامل اور آمنہ ہیں جو منگو اور اس کے جیسے بُرے افراد اور بدی کی قوتوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ اور اگر پُرانے زمانے کے بچوں کے تعلیم و تربیت کے حوالے سے بات کی جائے تو پی ٹی وی پر 1988-89ء کے دوران نشر کی جانے والی ڈرامہ سیریز انوکھا سفر ایک قابل ذکر کوشش تھی. اس ڈرامے میں نومی نامی نوعمر کردار جادوئی گھڑی باندھ کر غائب ہو کر پُرانے زمانے میں پہنچ جاتا تھا جہاں وہ معروف مسلم سائنسدانوں سے ملتا اور اُن کے تجربات سے آگاہی حاصل کرتا۔ ٹیلی وژن پر نشر کیے جانے والے بچوں کے زیادہ تر کارٹونز بچوں میں اخلاقی زوال کا باعث بن رہے ہیں اور اچھے کارٹونز کی تعداد بہت کم ہے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت معاشرے کی اساس ہے ۔حضورﷺ کا فرمان ہے کہ ہر بچہ فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے، اس کے بعد اس کے والدین اس کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور اسے جس رنگ میں چاہیں ڈھال دیتے ہیں۔ بخاری اور ابودائود کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ ہر بچہ فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں۔اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کے حوالے کر کے اُن کی تربیت سے غافل ہو کر ہندو بناتے ہیں یا یہودی مجوسی یا نصرانی۔
[…] http://daleel.pk/2016/08/19/4955 […]