نکاح صرف ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ دو بالغ افراد کے درمیان ایک سنجیدہ، قانونی اور سماجی معاہدہ ہے جو ان کی زندگی کا ایک نیا باب کھولتا ہے۔ قرآن مجید نے نکاح کو "میثاقاً غلیظاً" یعنی نہایت مضبوط عہد قرار دیا ہے، لیکن ہمارے معاشرتی رویے اس کے برعکس ہیں۔
خصوصاً دیہی اور کم خواندہ طبقات میں نکاح نامے کو محض ایک رسمی دستاویز سمجھا جاتا ہے، جو شریعت سے بے تعلق اور صرف قانونی ضرورت کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قانونی غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے بلکہ عورت جیسے نسبتاً کمزور فریق کو ان حقوق سے محروم کر دیتا ہے جو اسلام اور ریاست دونوں نے اسے دیے ہیں۔ 26 جون 2025 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک اہم فیصلے نے نکاح نامے کی قانونی، سماجی اور عملی اہمیت کو غیر معمولی انداز میں اجاگر کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے واضح کیا کہ نکاح نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ ایک مکمل شہری معاہدہ بھی ہے، جو دونوں فریقوں کے اختیارات، ذمہ داریوں اور حقوق کا ضامن ہے۔
عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ نکاح رجسٹرار کی تقرری، تربیت، اور نگرانی کے لیے باقاعدہ نظام قائم کیا جائے اور نکاح نامے کو سادہ، شفاف اور قابل فہم زبان میں اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں مرتب کیا جائے تاکہ ہر فریق اس کی تفصیلات کو پوری طرح سمجھ سکے۔ نکاح نامہ ایک قانونی دستاویز ہے جس کے ہر کالم میں ایک خاص مقصد اور اثر پوشیدہ ہوتا ہے۔ کالم 1 سے 6 تک دلہا اور دلہن اور ان کے والدین کی مکمل معلومات شامل کی جاتی ہیں جن میں نام، عمر، شناختی کارڈ نمبر اور پتا شامل ہوتا ہے۔ یہ تفصیلات بعد ازاں کسی بھی قانونی تنازعے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ کالم 7 میں نکاح کی تاریخ درج کی جاتی ہے، جو معاہدے کے وقت اور قانونی حیثیت کو ثابت کرتی ہے۔
کالم 8 اور 9 میں نکاح خواں اور دونوں گواہوں کی معلومات شامل ہوتی ہیں، جن کی موجودگی شریعت اور قانون دونوں کے تحت ضروری ہے۔ کالم 10 سے 12 میں حق مہر سے متعلق اہم معلومات درج کی جاتی ہیں، جیسے مہر کی مقدار، ادا کرنے کا وقت (فوری یا مؤخر)، اور اس کی نوعیت (نقد، زیورات، جائیداد یا کسی اور صورت میں)۔ ان کالموں میں اگر ابہام ہو تو بعد میں قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں. کالم 13 سے 16 میں نکاح کے طریقہ کار، ولی کی موجودگی اور دیگر ضروری تفصیلات شامل کی جاتی ہیں۔
یہ معلومات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نکاح شرعی تقاضوں کے مطابق انجام پایا ہے۔ کالم 17 ایک نہایت اہم کالم ہے جس میں یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ کیا دلہن کو طلاق کا اختیار دیا گیا ہے یا نہیں۔ بدقسمتی سے اکثر یہ خانہ بغیر سمجھے یا سماجی دباؤ کے تحت 'نہیں' سے بھر دیا جاتا ہے، حالانکہ اس اختیار کا عورت کی آئندہ زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔کالم 18 نکاح کی شرائط سے متعلق ہوتا ہے۔ ان شرائط میں تعلیم کی تکمیل، مالی تعاون، رہائش، یا دوسری شادی کی اجازت جیسے معاملات شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ شرائط دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی سے طے کی جاتی ہیں اور معاہدے کو مضبوط اور شفاف بناتی ہیں۔ کالم 19 میں کسی بھی اضافی معاہدے جیسے نان نفقہ، جہیز یا رہائش کی تفصیلات درج کی جا سکتی ہیں۔
کالم 20 سے 25 تک تمام متعلقہ افراد یعنی نکاح خواں، گواہان، دلہا، دلہن، اور نکاح رجسٹرار کے دستخط لیے جاتے ہیں۔ یہ دستخط نکاح نامے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر گہری تشویش ظاہر کی کہ نکاح رجسٹرارز کی اکثریت نہ صرف نکاح نامے کی قانونی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے بلکہ ان کی تقرری، تربیت اور اخلاقی معیار کا بھی کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان عورت کو ہوتا ہے جو نکاح کے وقت اپنے قانونی حقوق سے آگاہ نہ ہونے کی بنا پر بعد میں عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
یہ دلیل دینا کہ نکاح محض ایک مذہبی فریضہ ہے اور اس میں قانونی پہلو کی چنداں اہمیت نہیں، نہ صرف اسلامی تعلیمات سے لاعلمی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ خواتین کے حقوق سے انکار کے مترادف ہے۔ شریعت نے ہمیشہ شفافیت، گواہی اور معاہدے کی تحریری شکل پر زور دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نکاح اگرچہ زبانی ہوتا تھا، لیکن اعلان، گواہی اور رضامندی کو لازم قرار دیا گیا تھا۔ موجودہ دور میں ریاستی رجسٹریشن اور قانونی تحفظ دین اسلام کی تعلیمات سے متصادم نہیں بلکہ ان کی توسیع ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف نکاح کی قانونی تشریح پیش کرتا ہے بلکہ ایک سماجی بیداری کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اس فیصلے کی روشنی میں ایک مؤثر اور مربوط نظام قائم کرے جس میں نکاح رجسٹرارز کے لیے تربیتی پروگرامز، اہلیت کے معیارات اور اخلاقی جانچ کے عمل کو شامل کیا جائے۔ نکاح نامے کو علاقائی زبانوں میں قابل فہم انداز میں فراہم کیا جائے تاکہ فریقین مکمل آگاہی کے ساتھ معاہدہ کریں۔
بطور ایک قانون کے طالب علم، میرے نزدیک یہ فیصلہ نہ صرف قانون کی تفہیم کا در کھولتا ہے بلکہ ہمیں بحیثیت معاشرہ یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے خاندانی اداروں کو کس قدر سنجیدہ لیتے ہیں۔ نکاح ایک مقدس اور قانونی معاہدہ ہے، جس کی ہر شق اور شرط کو پوری دیانت داری سے سمجھنا اور تسلیم کرنا معاشرتی انصاف کی بنیاد ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نکاح کو محض رسم نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک ایسا معاہدہ بنائیں جو مساوات، شفافیت، اور انسانی وقار کا مظہر ہو۔ یہی وہ طرز عمل ہے جو ایک منصف مزاج، قانون دوست اور باوقار معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے