8 محرم الحرام کو چھموگڑھ اور جلال آباد،گلگت کے دو گاؤں کے درمیان ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ تھانہ پڑی بنگلہ کی ایف آئی آر کے مطابق
"مورخہ 4 جولائی 2025 کو 8 محرم کے جلوس کے دوران چھموگڑھ (ضلع گلگت) میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی۔ جلوس مقپون داس سے جلال آباد کی طرف بڑھ رہا تھا، سیکیورٹی ادارے وقفوں میں اسے آگے بڑھا رہے تھے۔ چھموگڑھ کے قریب تین موٹر سائیکل سواروں کی تفتیش کے بعد اجازت دی گئی، لیکن کچھ دیر بعد علاقہ میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی جس میں تین افراد زخمی ہوئے۔ نماز جمعہ کے بعد 200 سے زائد افراد نے سڑک بلاک کر کے پتھراؤ کیا۔ اسی دوران جلال آباد کی طرف سے فائرنگ سے سیکیورٹی اہلکار بخت اللہ، شہری عبدالمالک (جو جان بحق ہوا) اور کاشان زخمی ہوئے۔ اس کے بعد چھموگڑھ سے بھی فائرنگ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار تذکیر حسین بھی زخمی ہوا۔ موٹر سائیکل و دیگر گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ پوری صورتحال نے علاقے کا امن متاثر کیا۔ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیا گیا."
اس ناخوشگوار واقعے کے بعد انتظامیہ بھی فوری طور پر حرکت میں آ گئی، اور ڈپٹی کمشنر گلگت نے چھموگڑھ کے عوام کے خلاف سخت اور دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا۔ اس پوری صورت حال کے ردعمل میں کوہستان سے گلگت تک کئی مقامات پر سڑکیں بند کر دی گئیں، اور مختلف مذہبی تنظیمیں متحرک ہو گئیں۔ نتیجتاً، شاہراہ قراقرم (KKH) پر سفر کرنے والے عام مسافر، خواتین، بچے اور سیاح شدید ذہنی و جسمانی پریشانی کا شکار ہوئے۔ پورے علاقے میں خوف و ہراس اور افرا تفری کی فضا قائم ہو گئی، جس نے عام شہریوں کا معمول کا نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا۔
ان فسادات کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دینی تشخص کے بجائے فرقہ کے تشخص کو اولین ترجیح بنا دیتے ہیں. گلگت بلتستان میں بالخصوص محرم الحرام کے مقدس ایّام میں قیامِ امن کے لیے درجنوں امن معاہدات طے پائے ہیں۔ ان معاہدات کی ہر شق واضح ہے اور ریاستی توثیق بھی حاصل ہے، مگر اس کے باوجود، ہر سال محرم کے آتے ہی فرقہ وارانہ تشخص کو بچانے کے نام پر تصادم کو ایک لازمی امر سمجھ لیا جاتا ہے۔
ایک فرقہ اپنے جلوس کو اپنا “فرقی حق” سمجھتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ اگر یہ جلوس مخصوص راستوں سے نہ گزرے تو اس کا تشخص مٹ جائے گا، جب کہ دوسرا فرقہ انہی جلوسوں کو اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دے کر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ ایک فرقہ کو جلوس نہ نکالنے پر اپنے تشخص کے مٹ جانے کا خوف لاحق ہے، تو دوسرے فریق کو جلوس کے گزرنے اور نہ روکنے پر اپنے وقار اور شناخت کے مجروح ہونے کا ڈر ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے فرقہ وارانہ تشخص کو قائم رکھنے کے لیے میدانِ عمل میں آ جاتے ہیں، اور پھر اس کوشش میں بےگناہ انسانی جانوں کا ضیاع، قتل و غارت، اور شہر کا امن خاکستر ہو جاتا ہے۔کاش! یہ دونوں فرقے اپنے اپنے “فرقی تشخص” کے بجائے اسلامی دینی تشخص کو اپناتے، جس کی اصل بنیاد امن، رواداری، اخوت، اور صبر پر ہے۔ کاش کہ وہ ان معاہدات پر سنجیدگی سے عمل کرتے جو امن و امان کے لیے کیے گئے ہیں۔
اسلامی تشخص یہ ہے کہ ہم قرآن اور محمد صل اللہ علیہ والہ سلم کو اپنا تشخص قرار دیں۔ یہی اصل پہچان ہے جس پر امتِ مسلمہ کا اتحاد ممکن ہے۔جب ہم اپنا تعارف قرآن کی آیات اور رسولِ مکرم صل اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے آئینے میں دیکھیں گے، تو نہ ہمیں فرقہ پرستی کی ضرورت رہے گی، نہ مسلکی جھگڑوں میں الجھنے کی مجبوری۔اس کے لیے ہمیں لازمی طور پر اپنے فرقی، مسلکی اور گروہی تشخص سے بلند ہوکر سوچنا ہوگا۔یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر گلگت بلتستان اور پورے عالمِ اسلام کو امن، بھائی چارے اور ترقی کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جس اخوت کا تصور دیا وہ فرقوں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ایمان کی بنیاد پر قائم ہے۔پس! ہمیں اپنے اصل دین، اپنے اصل پیغام، اور اپنے اصل تشخص کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے، جو صرف اور صرف “اسلامی تشخص” ہے، نہ کہ کسی مخصوص فرقے کا۔ یہی گلگت بلتستان اور پورے ملک کے پائیدار امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
"ہائے میرا گلگت! معلوم نہیں کس بدبخت کی نظر لگ گئی ہے، جو ہر محرم میں یہ پرامن وادی خون میں نہا جاتی ہے۔ کبھی یہ مہینہ امن و آشتی کا پیغام لاتا تھا، اب فتنہ و فساد کا میدان بن جاتا ہے اور پھر پورا گلگت بلتستان اسے متاثر ہوجاتا ہے۔"
تبصرہ لکھیے