ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ بڑے لوگ جتنا زیادہ بوڑھے ہوتے ہیں ان کی دانائی ، عقلمندی اور حوصلہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے ۔جبکہ ہم خود اپنی زندگی کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم جتنے بزرگ ہوتے جاتے ہیں اتنا ہی ہمارا غصہ بڑھتا جاتا ہے ، صبر و برداشت جواب دیتے جاتی ہے . ہمارا غصہ کیوں بڑھتا ہے اس کے کچھ پہلوؤں کو دیکھتے ہیں !
ہمیں جس انسان ، حادثے ، صورت حال پر غصہ آتا ہے ۔ اس کا تعلق اس بندے ، حادثہ یا سیچوئیش سے ایک حد تک ہوتا ہے ۔سو میں ساٹھ ستر فیصد غصے کا تعلق ہمارے اس ماضی سے ہوتا ہے کہ جو اس سامنے والے بندے ، یا صورت حال سے کنکٹ کرتا ہے ۔ آئیے اسے سمجھتے ہیں ۔
جو عورت اپنے سسرالی رشتوں میں سے کسی ایک کی زیادتیوں کو برداشت کرتی ہے ، یا اپنے بہن بھائیوں میں سے کسی ایک کی زیادتیوں کو اگنور کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہونے والے یہ ظلم ایک زخم کی صورت اختیار کرتے جاتے ہیں ۔ جوانی کی ہمت میں تو برداشت ہو جاتا ہے ، بڑھاپے کے آتے ہی کسی کی ذرا سی بھی غلطی پر اسی زخم کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو انسان شدید ری ایکشن دیتا ہے ۔اسی کو ایک اور انداز سے دیکھیں ، بعض سیچوئیچنز ، رویے ، ایکسپریشنز ، جملے ، حرکتیں بذات خود بہت برے اور اذیت ناک نہیں ہوتے ۔ اگر ہمارے ماضی کے زخم مندمل ہو چکے ہوں ، بھر چکے ہوں تو ہم بڑے آرام سے ان کے ساتھ ڈیل کرلیں ۔
وہ ناقابلِ برداشت اسی لیے ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے ماضی کے دردوں سے کنکشن رکھتے ہیں ۔ ان کا سامنا کرتے ہیں ہمیں اپنے ماضی کے بھیانک چہرے ، حادثے ، درد ، خوف ، بے عزتی ، تذلیل یاد آنے لگتی ہے ۔ ہوں ہم شدید ردعمل دینے لگتے ہیں اور شاید سامنے والے کے چھوٹی موٹی غلطی پر اوور ریٹ ایکشن دیتے ہوئے زیادتی بھی کر جاتے ہیں ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ بڑی عمر کے حسن و جمال ، بڑے پن اور عقل و دانش سے اپنی زندگی کو سجائیں تو اس کے لیے ہمیں اپنے ماضی پر کام کرنا ہو گا ، غم منانے سے لے کر احساس دلانے تک کی خود میں ہمت لانی ہو گی جو بغیر تھیراپی لیے ممکن نہیں ہوتا ۔
سب سے بڑھ کر اپنی اگلی نسل کو اگنور کرو ، برداشت کرو ، صبر کرو کے بزدلانہ سبق پڑھانے کی بجائے انہیں عزت سے جینے اور اعلیٰ اخلاق و کردار کا حامل ایک معزز فرد بنانے پر محنت کرنا ہو گی تاکہ زندگی کے کسی مرحلے پر وہ تھکے ، ہارے ، ٹوٹے ، پھجے ، بہت ہو گیا ، بہت سہہ لیا ۔ جیسے جملے بولتے نظر نہ آئیں ۔بڑی عمر ، آزمائشیں انہیں تباہ نہ کریں ، ان کا حوصلہ ، اخلاق ، خدا پر اچھا گمان ، نہ چھینیں وہ پھولوں کی طرح مہکتے ہوئے معاشرے کو مہکاتے رہیں اور شجر سایہ دار بنے ۔ رشتوں کو اپنی ٹھنڈی چھاؤں میں کھلاتے اور پالتے رہیں ۔
أخر میں ہم رب تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے سب غموں پر اپنی رحمت کا مرہم رکھتے ہوئے ان کے درد کو ختم فرما دے اور اجر کو ثابت فرما دے آمین یا رب العالمین
تبصرہ لکھیے