انگریزی کے ایسے بہت سے الفاظ جو بلاوجہ ہمارے ہاں آئے اور بلا ضرورت بولے گئے۔ ان کی یہاں ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ ہمارے پاس اپنی زبان کے اچھے الفاظ موجود تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے ان کو بولنا چاہا، غالباً یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ہم بہت پڑھے لکھے اور ماڈرن ہیں۔ لیکن اس چکر میں ہم نے ان نو وارد الفاظ کی مٹی بھی خوب پلید کی۔
پرانی بات ہے، ہم یونیورسٹی کے کچھ دوست ٹرین پر کراچی سے لاہور پہنچے۔ جانا تو ہمیں راولپنڈی تھا، لیکن یہاں سے آگے کا سفر بس پر کرنا تھا۔ ہم لاہور اسٹیشن پر اترے اور وہاں سے بس اڈے کی طرف جانے کیلئے باہر نکلے۔ ہمارے ایک ہمسفر دوست کا کزن یہاں لاہور چیمبر آف کامرس میں ملازم تھا۔ اس نے کہا کہ یار اس سے ملنے کا تو ٹائم نہیں، لیکن یہاں آئے ہیں تو اسے فون ہی کر لیتے ہیں۔ واپسی میں اگر موقع ہوا تو ملاقات بھی کر لیں گے۔اس زمانے میں موبائل تو ہوتا نہیں تھا، بس لینڈ لائن نمبر ہوتے تھے، لیکن ہمارے پاس چیمبر آف کامرس کا نمبر نہیں تھا۔ چنانچہ ہم ایک پی سی او (PCO : Public Call Office) والے کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ ہمیں فون کرنا ہے۔
”جی کدھر کرنا ہے؟“ وہ بولا۔
جب ہم نے کہا کہ ”چیمبر آف کامرس“ … تو وہ کچھ سٹپٹا گیا۔
”یہ کون سی جگہ ہے جی؟“ وہ سر کھجاتے ہوئے بولا۔
”یار چیمبر آف کامرس نہیں پتہ؟ … جہاں بزنس ہوتا ہے؟“ میں حیران ہو کر بولا۔ لیکن اسے پھر بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ہم نے بار بار کہا کہ چیمبر آف کامرس، چیمبر آف کامرس، لیکن وہ نہیں سمجھا۔ بالآخر اس نے ایک پڑوسی دوکاندار کو بلایا، اس سے بھی ہم نے کہا کہ چیمبر آف کامرس۔
شکر ہے کہ وہ ہماری بات سمجھ گیا۔ اس نے پی سی او والے سے کہا :
”او پاغلا ۔۔۔ اے ”چیمب رَس کام رَس“ کہندے نیں“
”چیمب رَس کام رَس؟“ وہ چونک کر بولا۔
”تے فیر پہلے ہی کہنا سی، مینوں تے سمجھ ای نئیں لگی“
اس نے فوراً ہی چیمبر آف کامرس میں کال ملا دی۔
”چیمبر آف کامرس“ تو اس بیچارے کی سمجھ میں نہیں آیا تھا … البتہ ”چیمب رَس کام رَس“ اسے فوراً سمجھ میں آ گیا۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے ”فل فلیج“ (Full-fledged)، تو اس میں جو ”فلیج“ Fledge ہے اسے ہمارے لوگوں نے ”فلیش“ سمجھا، غالباً اس لئے کہ کیمرے کی فلیش گن کی صورت میں یہ لفظ ہمارے پاس پہلے سے موجود تھا۔ چنانچہ یہ اصطلاح بن گئی ”فل فلیش“ (Full-flesh)۔اگر کسی شخص کی صلاحیت یا معیار کے بارے میں بات ہو رہی ہو اور کہنا یہ ہو کہ وہ شخص اس معیار یا اس پائے کا نہیں، تو کہا جاتا ہے کہ ”یہ شخص اس ”کیلی پر“ کا نہیں“. اب یہ کیلی پر کیا ہے؟
یہ دراصل انگریزی کا لفظ ”کیلیبر“ (Calibre) ہے۔ کیلیبریشن Calibration، یعنی پیمائش کرنا، سائز لینا، ناپنا وغیرہ . چنانچہ یہ لفظ کیلیبر کسی شخصیت کا معیار بتانے کیلئے بولا جاتا ہے کہ ”یار وہ بڑا کیلیبر کا آدمی ہے“ . لیکن یہاں اس لفظ کو ”کیلیبر“ نہیں ”کیلیپر“ بول دیا جاتا ہے، کیونکہ اسکول کے دنوں میں فزکس کے پریکٹیکل میں وہ ”ورنیئر کیلیپر“ استعمال کر چکے ہوتے ہیں، لفظ کیلیپر پہلے ہی سن رکھا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہی لفظ ہے، چنانچہ کیلیبر ان کیلئے کیلیپر ہوتا ہے۔
طہارت خانوں میں جس طرح ایشین ڈبلیو سی استعمال ہوتی ہے اسی طرح یورپین کموڈ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کموڈ کو کچھ لوگ کمبوڈ بھی کہتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ لفظ ”کمبوڈیا“ پہلے سے سن رکھا ہوتا ہے۔کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں کہ وہ جس طرح انگریزی میں ادا ہوتے اس طرح یہاں ادا نہیں کئے جاتے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ”گڈز“ (Goods) یعنی ساز و سامان۔ لیکن اسے بھی کچھ لوگ گُڈَس Gooddas کہتے ہیں۔ جیسے ٹرکوں پر لکھا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں گڈز فارورڈنگ ایجنسی، تو اسے وہ پڑھتے ہیں گڈَس فارورڈنگ ایجنسی۔
لفظ ”پیپلز“ (Peoples) کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان ”پیپ لَز“ پارٹی کہہ دیتے ہیں۔ جیسے مشہور کھلاڑی ویون رچرڈ کو بھی ”وی وَن رِِچ رَڈ“ کہتے ہیں۔90ء کی دہائی میں ایک فلم کمپنی آئی تھی جو ہالی ووڈ کی مشہور فلمیں ہائی کوالٹی میں وڈیو کیسٹوں پر پیش کرتی تھی۔ اس کمپنی کا نام تھا ”پلس گلوبل“ (Pulse Global) ۔ کچھ لوگ اسے بھی پَلس گلوبل کی بجائے پلَس گلوبل (Plus Global) کہتے تھے، کیونکہ لفظ پلس Plus پہلے سے سن رکھا تھا۔
ڈبل کیبن (یا سنگل کیبن) پک اپ یہاں سب سے پہلے ڈاٹسن کمپنی نے متعارف کروائی تھیں۔ ٹویوٹا کی پک اپ بعد میں آئی۔ چنانچہ جو کمپنی سب سے پہلے آئی وہی اس گاڑی کا نام بن گئی اور ٹویوٹا والی پک اپ کو بھی لوگ ڈاٹسن ہی کہنے لگے۔ بالکل اسی طرح جیسے کپڑے دھونے کا پاؤڈر سب سے پہلے ”سرف“ کے نام سے آیا تو پھر ہر کمپنی کے پاؤڈر کو سرف ہی کہا جانے لگا۔ ڈاٹسن کو سندھ کے دیہات میں ”ڈارسن“ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر ایک پک اپ کھڑی ہے تو ڈارسن … زیادہ ہیں تو ”ڈارسنیں“۔
بجلی کے تار جوڑنے کے بعد اس کو کَور کرنے کیلئے جو کالا ٹیپ استعمال ہوتا ہے اسے ”سیلوفین ٹیپ“ (Cellophane Tape) کہا جاتا ہے، لیکن یہاں اسے ”سلوشن“ ٹیپ بھی کہہ دیا جاتا ہے، کیونکہ یہ لفظ سلوشن (چمڑے وغیرہ کو چپکانے والا کیمیکل، صمد بونڈ وغیرہ) کی صورت میں یہاں پہلے سے موجود تھا۔جب ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت تھی تو یہاں کا انگریز حکمران ”وائسرائے“ کہلاتا تھا۔ وائسرائے ملکہ برطانیہ کا نمائندہ اور ایک طرح سے ہندوستان کا بادشاہ ہوتا تھا۔ چنانچہ لفظ وائسرائے ایک خاص اہمیت اور رعب و دبدبہ رکھتا تھا۔ خصوصاً ہمارے سندھ کے دیہاتوں میں تو مائیں اپنے بچوں کو نہ صرف لاڈ سے وائسرائے کہتیں، بلکہ یہی ان کا نام بھی رکھ دیتی تھیں۔
ہمارے گاؤں میں ایک عزیز تھے جن کو سب ماما واسو کہتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا :
"یہ واسو بھلا کیا نام ہوا؟ … یہ کہیں ”وارث“ تو نہیں؟“
تو وہ بولے کہ میرے شناختی کارڈ پر تو وارث ہی لکھا ہے، لیکن یہ اصل میں وارث بھی نہیں۔
”تو پھر یہ کیا ہے؟“ میں اچنبھے سے بولا۔
”یہ دراصل ”وائسرائے“ ہے … میری ماں نے محبت سے میرا نام وائسرائے رکھا تھا، لوگوں نے اسے بگاڑ کر واسو کر دیا“ وہ اداسی سے بولے۔
انگریزی کے کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اگر ہم اپنی زبان میں لاتے ہیں تو اس کی مختلف شکلیں بھی نکال لیتے ہیں۔ جیسے سندھی کا لفظ چھوکرو (یعنی لڑکا) ہے۔ اگر ایک لڑکا ہے تو وہ ”چھوکرو“ کہلائے گا، لیکن ایک سے زیادہ ہوئے تو ”چھوکرا“ (لڑکے) کہلائیں گے۔ انگریزی کے لفظ ”ایکس رے“ کے ساتھ بھی بالکل اسی طرز کا سلوک کیا گیا۔ یعنی ایک ایکسرے ہے تو وہ ”ایکسرا“ ہے، زیادہ ہیں تو ”ایکسرے“ ہیں … یعنی اگر میں نے ایک ایکسرے کروایا ہے اور اس کی شیٹ لے کر آ رہا ہوں، اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ یہ کیا ہے، تو میں کہوں گا کہ یہ میرا ایکسرا ہے۔ لیکن اگر ایک سے زیادہ ہیں تو میں کہوں گا یہ میرے ایکسرے ہیں۔
بالکل ایسے ہی ایک فرینچ لفظ ”ساشے“ آیا ہے۔ یہاں بھی ایک پڑیا ہے تو وہ ہوئی ”ساشا“، زیادہ ہیں تو ”ساشے“ ۔ اگر ہم نے کسی چیز کے ساشے پیک بنوائے ہیں تو ہم کہیں گے ہم نے یہ چیز ”ساشوں“ میں پیک کروائی ہے۔ ہمارے آفس میں ایک قاصد ہوتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے بازو پر کوئی دانہ نکلا تو وہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں جراح کے پاس جا رہا ہوں، لیکن اس نے جراح نہیں ”جرے“ کہا کہ میں جرے کے پاس جا رہا ہوں۔ اس کی مثال سندھی سے یوں ہوگی کہ اگر ہم کسی ”بھٹو“ کے پاس جا رہے ہوں تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہم بھٹو کے پاس جا رہے ہیں … ہم کہیں گے کہ ہم ”بھٹے“ کے پاس جا رہے ہیں۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے "اَن آتھرائزڈ" (Unauthorized)، یعنی غیر قانونی … مثلاً آپ نے کوئی ایسا پلاٹ لیا ہے جس کے کاغذات نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اَن آتھرائزڈ پلاٹ ہے۔ اس مشکل لفظ کو یہاں کچھ لوگ ”انتھرائی“ بھی کہتے ہیں۔کوئٹہ کو ہم تو کوئٹہ ہی کہتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اسے کوٹیا بھی کہتے ہیں۔ لفظ کوئٹہ چونکہ ہمارے پاس پہلے سے موجود تھا، اس لئے جب جاپانی گاڑی ٹویوٹا یہاں پہنچی تو وہ بھی اسی لفظ کوئٹہ کی طرز پر ”ٹوئٹہ“ کہلائی۔ کوئٹہ لفظ چونکہ پہلے سے موجود تھا لہذا ٹویوٹا بھی ٹوئٹہ ہو گئی۔
سندھ کے ایک معروف دانشور تھے ”اے کے بروہی“ … لیکن یہی نام اے کے بروہی انگریزی سے سندھی میں آیا تو ”ایکو بروہی“ ہو گیا۔ ہماری اماں کہتی تھیں کہ اس زمانے میں ایکو بروہی بہت مشہور تھا۔
کراچی میں ایک سپاری بڑی مشہور ہوئی … ”ٹیسٹی سپاری“ … لیکن اسے کچھ لوگ ”ٹیسکی“ سپاری کہتے تھے، کیونکہ وہ ٹیکسی کو بھی ٹیسکی ہی کہتے تھے۔اسی طرح ایک لفظ پاسپورٹ بھی ہے، جسے خصوصاً ہمارے پنجاب کے دیہات میں ”پارس پوٹ“ کہا گیا کیونکہ لفظ ”پارس“ یہاں پہلے سے موجود تھا۔
لفظ سرٹیفکیٹ کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ چونکہ "م”سرٹی فی کیٹ“ بولنا مشکل تھا، اس لئے یہ بھی "م”سرٹی فی ٹیک“ ہو گیا، حالانکہ یہ بھی کچھ کم مشکل نہیں۔ اسی طرح ایکسیڈنٹ کو ”ایسی ڈن“، سگرٹ کو ”سرگٹ“، الیکٹرونکس کو ”الیکٹرون کِس“ اور میٹرنٹی ہوم (Maternity Home) کو ”میٹ رین ٹی ہوم“ کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں، اور ان میں زیادہ تر الفاظ وہ ہیں جو انگریزی سے یہاں آئے اور آتے ہی ان کی مٹی پلید ہو گئی۔
تبصرہ لکھیے