مغربی ممالک میں مسلمانوں اور دیگر اقوام میں صریح تفریق برتی جاتی ہے، جب ایک غیرمسلم کو قتل یا زخمی کیا جائے تو پورا مغرب سوگ میں ڈوب جاتا ہے، پرچم سرنگوں ہوجاتے ہیں، اور مسلمان ممالک پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس ایک کے بدلے ہزاروں مسلمانوں کو بم و بارود کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اگر انہی مغربی ممالک میں کسی مسلمان کا قتل ہوجائے تو مغربی انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ امریکی شہر اور دنیا کا دارالحکومت سمجھے جانے والے نیویارک میں دنیا کے مختلف مقامات سے مختلف مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف مقاصد کےلیے قیام پذیر ہیں. بیرونی ممالک کے مسلمانوں کے علاوہ مقامی مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے. 13اگست کو اسی نیویارک میں الفرقان مسجد کے خطیب اور نائب خطیب کو شہید کر دیا گیا،
نیو یارک میں مقیم بنگالی کمیونٹی اور دیگر مسلمانوں نے احتجاج بھی کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ قاتل کو گرفتار کرکے انصاف دلایا جائے. مولانا اخون جی 3 بیٹوں کے باپ تھے، ان کے 23 سالہ بیٹے نعیم کا کہنا تھا کہ ہم صرف اپنے والد کا قصور جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا؟ وہ نیویارک میں مسلمانوں کے ترجمان اور امن کے سفیر بن کر آئے تھے. یاد رہے کہ مولانا اخون جی نے رواں ہفتے اپنے بیٹے کی شادی پر بنگہ دیش جانا تھا، لیکن اس دہشت گردی کی وجہ سے ان کی میت روانہ کی گئی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مولانا اخون جی کا قتل امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام اور مسلمان دشمن پروپیگنڈے کا شاخسانہ ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے مغرب میں مسلمانوں کے خلاف پہلے سے زیادہ نفرت اور تعصب پھیل رہا ہے اور اب نوعیت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امن کے نام پر دنیا کو چکنا چور کرنے والوں کے اپنے ممالک بدامنی کا شکار ہیں اور وہاں نہتے امن پسند مسلمان بھی موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔
خونِ مسلم پہ اتنی خاموشی کیوں - محمدبلال خان

تبصرہ لکھیے